سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل کے خلاف دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کی مکمل عزت کرتے ہیں۔ انہوں نے درخواست گزاروں کے وکیل امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ کے دلائل سننے کے بعد صدر مملکت ‘ وزیراعظم، سیاسی جماعتوں، پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کا آغاز کردیا گیا ہے۔ سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
8 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بھی شامل ہیں۔
درخواست گزاروں کے طرف سے وکیل اظہر صدیق ایڈوکیٹ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جبکہ اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار راجہ عامر کے وکیل امتیاز صدیقی نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں یہ مقدمہ بہت اہمیت کا حامل ہے، قاسم سوری کیس کے بعد سیاسی تفریق میں بہت اضافہ ہوا ہے، قومی اسمبلی کی بحالی کے بعد سے سیاسی بحران میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کروانے پر آمادہ نہیں، عدالت کو انتخابات نہ کروانے ہر از خود نوٹس لینا پڑا، عدالت نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کروانے کا حکم دیا، 3 اپریل کو عدالت نے دوبارہ انتخابات کروانے کا حکم دیا۔
انہوں نے کہا کہ آئین پر عمل کرنے کے عدالتی حکم کے بعد مسائل زیادہ پیدا کیے گئے، عدالت اور ججز ہر ذاتی تنقید کی گئی، حکومتی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ اس کے ذمہ دار ہیں۔ مجوزہ قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی، دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد بل صدر کو بھجوایا گیا، صدر مملکت نے اعتراضات عائد کر کے بل اسمبلی کو واپس بھیجا، سیاسی اختلاف پر صدر کے اعتراضات کا جائزہ نہیں لیا گیا، مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد دس دن میں بل قانون بن جائے گا، آرٹیکل 191 ہے تحت سپریم کورٹ اپنے رولز خود بناتی ہے۔ بل کے تحت از خود نوٹس اور بینچز کی تشکیل کا فیصلہ 3رکنی کمیٹی کرے گی.
امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا، بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ بل قانون بننے کے لائق ہے؟ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ کابینہ کی جانب سے بل کی توثیق کرنا غیر قانونی ہے، بل کابینہ میں پیش کرنا اور منظوری دونوں انتظامی امور ہیں، بل کو اسمبلی میں پیش کرنا اور منظوری لینا بھی غیر آئینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بل زیر التواء نہیں بلکہ مجوزہ ایکٹ ہے، صدر منظوری دیں یا نہ دیں ایکٹ قانون کا حصہ بن جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ چیف جسٹس کے بغیر سپریم کورٹ کا کوئی وجود نہیں۔چیف جسٹس کی تعیناتی سے ہی سپریم کورٹ مکمل ہو کر کام شروع کرتی ہے۔ چیف جسٹس کے بغیر دیگر ججز موجود ہوں بھی تو عدالت مکمل نہیں ہوتی۔ ریاست کے ہر ادارے کا سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے، چیف جسٹس کا آفس کوئی اور جج استعمال نہیں کرسکتا .
امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ حسبہ بل کے کیس میں بھی سپریم کورٹ نے منطور شدہ بل کا جائزہ لیا، حسبہ بل کیس ناقابل سماعت ہونے کے اعتراضات سپریم کورٹ نے مسترد کئے، سپریم کورٹ نے حسبہ بل کو غیر آئینی قراردیا۔ حسبہ بل صدارتی ریفرنس کی صورت میں سپریم کورٹ آیا تھا، موجودہ کیس آرٹیکل 184/3 کا ہے جس میں عدالت زیادہ بااختیار ہے۔ آرٹیکل 184/3 میں سپریم کورٹ شادی ہال تک گرانے کا حکم دے چکی ہے۔ عدالت کے تمام احکامات بنیادی حقوق کے پیرائے میں تھے۔ کیا عدلیہ کی آزادی عوام کا بنیادی حق نہیں ہے؟ مجوزہ قانون کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی گئی ۔
انہوں نے کہا کہ آئین 184/3 میں اپیل نہیں نظرثانی کا حق دیتا ہے، سپریم کورٹ کا ایک جج دوسرے جج کے خلاف اپیل نہیں سن سکتا، کئی مرتبہ ہم وکلاء بھی 184/3 کا شکار ہوئے ہیں، عام مقدمات میں نظرثانی کیس 5منٹ بھی نہیں چلتا، کچھ مقدمات میں نظر ثانی مقدمات کئی ماہ چلتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمینٹ عدلیہ کے اندرونی معاملے کو ریگولیٹ کرسکتی ہے؟
امتیاز صدیقی کے دلائل ختم ہوئے تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم پارلیمنٹ کی مکمل عزت کرتے ہیں، ہم آج کی سماعت کا آرڈر بعد میں جاری کریں گے، آئندہ سماعت کب ہوگی اس پر اپنے ججز کے ساتھ مشاورت کروں گا، سماعت کی اگلی تاریخ تحریری حکم نامے میں لکھ دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ضروری ہوا تو اس کیس میں عدالتی معاون مقرر کریں گے۔
سپریم کورٹ نے صدر مملکت ‘ وزیراعظم اور سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کیے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
8 رکنی بینچ کی تشکیل مسترد کرتے ہیں، حکمران اتحاد
آج صبح حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل کی سماعت کے لیے تشکیل دیے گئے 8 رکنی بینچ کو مسترد کردیا ہے۔
حکومت میں شامل جماعتوں نے مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ قانون سازی کا عمل مکمل ہونے اور اس کے نفاذ سے پہلے ہی متنازعہ بینچ تشکیل دیا گیا ہے لہٰذا ہم بل کے نفاذ سے پہلے ہی سماعت کے لیے مقرر کرنے کا اقدام مسترد کرتے ہیں۔
حکومتی جماعتوں کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اس نوعیت کا اقدام پاکستان اور عدالتی تاریخ میں پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ ملک کی عدالتی ساکھ ختم کرنے اور انصاف کے آئینی عمل کو بے معنی کرنے کے مترادف ہے۔ بینچ بذات خود سپریم کورٹ کی تقسیم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اعلامیے میں لکھا گیا کہ حکومت میں شامل جماعتوں کے پہلے بیان کردہ موقف کی پھر تائید ہوئی ہے، خود ججز فیصلوں میں ون میں شو، آمرانہ طرزِ عمل اور بینچوں کی تشکیل پر اعتراضات کرچکے ہیں۔ 8 رکنی متنازعہ بینچ کی تشکیل سے عدالتِ عظمیٰ کے ججز کے فیصلوں میں حقائق واضح ہوکر سامنے آچکے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ حکمران جماعتیں اس اقدام کو پارلیمان اور اس کے اختیار پر شب خون قرار دیتی ہیں جس کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔ انتہائی عجلت میں متنازعہ بینچ کی تشکیل اور اس بل کو سماعت کے لیے مقرر کرنے سے ہی نیت اور ارادے کے علاوہ آنے والے فیصلے کا بھی واضح اظہار ہوجاتا ہے جو افسوسناک اور عدل وانصاف کے قتل کے مترادف ہے۔
بیان میں واضح کیا گیا کہ عدالتِ عظمیٰ کے اقدام اور متنازعہ بینچ کی تشکیل پر پاکستان کی بار کونسلز کا بیان اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ یہ اقدام نہ صرف عدل و انصاف کے منافی ہے بلکہ مروجہ عدالتی طریقہ کار اور متعین اصولوں کے بھی صریحاً برعکس ہے۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ 12 اکتوبر 2019 کو لاہور میں آل پاکستان وکلا کنونشن نے قرارداد منظور کرکے پارلیمان سے مطالبہ کیا تھا کہ یہ قانون منظور کیا جائے۔ ملک بھر کی وکلا برادری کے اس مطالبے پر عمل کرتے ہوئے پارلیمان نے متعلقہ قانون منظور کیا۔
جاری کردہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ پارلیمان کا اختیار چھیننے اور اس کے دستوری دائرہ کار میں مداخلت کرنے کی ہر کوشش کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی، آئین پاکستان کی روشنی میں پارلیمان کے اختیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔