مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ قانونی نہیں سیاسی ہے، بیرسٹر منصور اعظم

منگل 10 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مدارس کی رجسٹریشن کے طریقہ کار کے حوالے سے جمیعت علمائے اسلام نے وفاقی حکومت کو ڈیڈلائن دی ہے کہ ان کے تجویز کردہ بِل کو منظور کیا جائے۔ اس بارے میں قانون کیا کہتا ہے اس حوالے سے ہم نے بیرسٹر منصوراعظم سے گفتگو کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے بنیادی قانون سوسائٹیز ایکٹ ہے جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ رجسٹریشن ہونی چاہیے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ فلاں اتھارٹی کے پاس ہی رجسٹریشن ہونی چاہیے۔ اس قانون کو پڑھے بغیر، اس کے مطالب کو سمجھے بغیر قانونی کی بجائے بہت ساری سیاسی گفتگو کی جارہی ہے جبکہ قانون کے اندر کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔ اسی قانون کے تحت مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مدارس کا وزارت تعلیم کے ساتھ تعلق برقرار رکھا جائے، 10وفاق المدارس کا حکومت سے مطالبہ

بنیادی چیز یہ ہے کہ مدارس کو رجسٹرڈ ہونا چاہیے۔ جب وہ رجسٹرڈ ہوں گے تب ہی ان میں پڑھنے والے طالب علم اور اساتذہ کے حقوق طے ہو سکیں گے۔

 بیرسٹر منصور اعظم نے کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن کے لیے پہلی بار قانون برطانوی حکومت نے 1860 میں بنایا جس کو سوسائٹیز ایکٹ کہتے ہیں۔

29 اگست 2019 کو پاکستان تحریک انصاف کے دور میں مدارس کو وفاقی وزارت تعلیم کے ساتھ رجسٹرڈ کیا گیا۔ بیرسٹر منصور نے بتایا کہ اس سے قبل صورتحال یہ تھی کہ کچھ مدارس اپنے اپنے وفاق المدارس کے ساتھ رجسٹرڈ تھے اور کچھ سوسائیٹیز ایکٹ کے تحت (بطور این جی او) رجسٹرڈ تھے۔

یہ بھی پڑھیں: مدارس بل پر دستخط نہ کرنا بدنیتی، اسلام آباد کی جانب مارچ کا فیصلہ کیا تو کوئی روک نہیں سکےگا، فضل الرحمان

نائن الیون کے بعد سے ضرورت محسوس کی گئی کہ مدارس کو رجسٹرڈ کیا جائے۔ جنرل مشرف کے دور میں بھی اس پر کام ہوتا رہا لیکن پاکستان تحریک انصاف نے اس سلسلے میں تفصیلی کام کیا اور وزارت تعلیم کے اندر ایک اداراہ بنایا جس کا نام ہے ڈائریکٹوریٹ برائے مذہبی تعلیم۔

اس ادارے کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کے لیے ون ونڈو آپریشن کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان سے ہٹ کر دیگر وفاق المدارس اس بات پر متفق نہیں کہ ان کی رجسٹریش کے عمل کو ڈائریکٹوریٹ برائے مذہبی تعلیم سے ہٹا کر وزارت صنعت و تجارت کے ماتحت کیا جائے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ ڈائریکٹوریٹ کچھ سہولیات مہیا کرتا ہے جیسا کہ طلباء کے لیے اسکالرشپس، بینک اکاؤنٹس کھولنے کی سہولت، غیر ملکی طلبا کے لیے نو سال کا ویزہ وغیرہ۔ جبکہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اس سارے عمل کو لپیٹ کر نئے سرے سے دوبارہ شروع کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: مدارس کو ریگولیٹ کرنےکے لیے رجسٹریشن کا عمل ناگزیرہے، بیرسٹر گوہر خان

بیرسٹر منصور اعظم نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان ایک زمانے میں خود مدارس کی رجسٹریشن کو وزارت تعلیم سے وزارت صنعت و تجارت کے پاس اور وزارت تعلیم سے واپس وزارت صنعت و تجارت کے پاس لے جا چکے ہیں اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت وزارت داخلہ بھی مدارس کی رجسٹریشن کرتی رہی ہے۔

بیرسڑ منصور اعظم نے کہا کہ صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے جانے والے بِل پر اٹھائے جانے والے اعتراضات درست ہیں کیوںکہ ان کو بھجوائے جانے والے بِل کے ڈرافٹ میں سقم تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp