پاکستان کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے جید علما نے حکومت کو واضح کیا ہے کہ مدارس کو موجودہ نظام تعلیم سے ہی وابستہ رکھا جائے، حکومت کسی بھی پریشر میں نظام مدارس کو تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے، اس نظام سے لاکھوں طلبا کا مستقبل وابستہ ہے، اس نظام کو تبدیل کرنے کا مقصد لاکھوں طلبا کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہوگا، جس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی، مدارس اور تعلیم سے متعلق کسی بھی قانون سازی کے لیے تمام بورڈز کے نمائندوں کو اعتماد میں لیا جائے۔
اسلام آباد مدارس کی رجسٹریشن اور اصلاحات سے متعلق اجلاس منعقد ہوا جس میں مدارس کی رجسٹریشن اور اصلاحات کے حوالے سے مشاورت کی گئی۔ اجلاس میں وفاقی وزیر مذہبی امور چوہدری سالک حسین، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ، وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی اور ڈائریکٹر جنرل وفاقی وزارت تعلیم کے علاوہ پاکستان بھر سے ہر مکتبہ فکر کے جید علما کرام شریک ہوئے۔ معانت کے لیے پاکستان علما کونسل کے چیئرمین مولانا حافظ طاہر اشرفی، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل راغب نعیمی اور چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مولانا عبدالخبیر آزاد اجلاس میں شریک ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: مدارس رجسٹریشن ایشو کیا ہے، اس پر اتنی سیاست کیوں ہورہی؟
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین علما کونسل مولانا طاہر اشرفی نے کہا کہ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بڑے ادارے جن کے ساتھ ہزاروں مدارس وابستہ ہیں، انہیں بورڈ بنانے کا حق دیا جائے اور مدرسے کی تعلیم کو بھی حکومتی سطح پر تعلیم تسلیم کیا جائے، مدارس کی رجسٹریشن کا جو ون ونڈو آپریشن طے ہوا ہے، اس پر عمل کیا جائے۔
مولانا طاہر اشرفی نے کہا کہ 2019 کے بعد مدارس بورڈ کے حوالے سے حکومت نے پالیسی تبدیل کی تھی، حکومت نے اس حوالے سے بہت طویل مشاورت کی اور کئی اجتماعات کیے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے بورڈز پر فیصلہ ہوا کہ جن کے پاس مدارس ہیں انہیں بورڈ بنانے کا حق دیا جائے، اس حوالے سے 10 نئے بورڈ اپلائی کیے گئے، معیار دیکھا گیا اور قائم کردیے گئے، آج یہ بورڈز بھرپور طریقے سے کام کررہے ہیں۔
طلبا کے مستقبل کیساتھ کسی کو کھیلنے نہیں دینگے، مولانا طاہر اشرفی
انہوں نے کہا کہ ہم خود مدرسوں سے پڑھے ہیں، مدرسے بنانے والوں کی اولادیں ہیں، ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ جب بھی مدارس کا معاملہ آئے اور ہم چپ کرکے بیٹھ جائیں، جب بھی مدرسے کا معاملہ آیا علما نے طلبا کے وقار اور عزت کی جنگ لڑی، خوف مسلط کیا جاتا ہے کہ کوئی بیرونی ایجنڈا آئے گا اور تنکے کی طرح اڑا کر لے جائے گا، ایسا نہیں ہوسکتا کہ تیز ہوا آئے اور مدرسوں کو اڑا کر لے جائے، مدرسے والا اور مدرسے میں پڑھنے والا کمزور نہیں ہے۔۔
طاہر اشرفی نے بتایا کہ 2019 کے معاہدے پر مفتی تقی عثمانی، مفتی رحیم، قاری حنیف جالندھری، پروفیسر ساجد میر، یاسین ظفر، عبدالماجد، ڈاکٹر عطاالرحمان، حیدر نجی کے دستخط موجود ہیں جبکہ حکومت کی طرف سے شفقت محمود اور سیکریٹری تعلیم ارشد مرزا کے دستخط بھی موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مدارس بل پر دستخط نہ کرنا بدنیتی، اسلام آباد کی جانب مارچ کا فیصلہ کیا تو کوئی روک نہیں سکےگا، فضل الرحمان
انہوں نے کہا کہ آپ نے 2019 میں کہا کہ یہ قانون اور معاہدہ ہے، ہم نے مان لیا، آج آپ کہتے ہیں کہ اس معاہدے کو پھینکیں، نیا معاہدہ لائیں، میرا اور لاکھوں طلبا کے مستقبل کا فیصلہ کون کرے گا، ہم اپنے مدارس، طلبا اور اساتذہ کے ذمہ دار ہیں، ہم ان کے مستقبل کیساتھ کسی کو کھیلنے نہیں دیں گے۔
مولانا طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ آج کہتے ہیں کہ نیا قانون لائیں، 4 سال بعد پھر نیا قانون لانے کا کہیں گے، اس طرح تو یہ کھیل بن جائے گا، آج اگر اسکالرشپ یا باقی امور چاہییں تو کس سے لیں گے، ہمیں مدرسے کے پلیٹ فارم سے سیاست نہیں کرنی، ہمارے پاس سیاست کے لیے الگ پلیٹ فارم موجود ہے، حکومت سے بھی شکوے اور شکایتیں ہیں، مل بیٹھ کر حل کرلیں گے۔
طے ہوا تھا تمام مدارس وزارت تعیم سے منسلک ہونے چاہئیں، ڈی جی مذہبی تعلیم
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل مذہبی تعلیم میجر جنرل (ر) ڈاکٹر غلام قمر نے کہا کہ تمام مکاتب فکر کے جید علما سے مشاورت ہوئی، طے ہوا کہ تمام مدارس وزارت تعلیم سے منسلک ہونے چاہییں، یہ وہ معاہدہ تھا جس پر تمام جید علما کے دستخط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مختلف ادوار مین مدارس کو مشکلات کا سامنا رہا، متفقہ طور پر طے ہوا تھا کہ مدارس کو قومی دھارے میں لایا جائے گا تاکہ مدارس کے طلبا کو اچھا روزگار ملے اور وہ معاشرے کے اچھے شہری بن سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: مدارس بل پر مولانا فضل الرحمان کے تحفظات دور کیے جائیں، نواز شریف کی وزیراعظم کو ہدایت
ڈی جی مذہبی تعلیم نے کہا کہ ہم نے یہ بھی طے کیا تھا کہ بیرون ملک کے طلبہ کو ویزا فراہم کریں گے، دائریکٹوریٹ کے اندر 16 ریجنل دفاتر کام کررہے ہیں، ہر گلی محلے جاکر مدارس کا دورہ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ رجسٹریشن سہولت کے لیے وزارت تعلیم نے 10 نئے بورڈز تشکیل دیے، مدارس کو ہم نے اساتذہ فراہم کیے جو کم از کم ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہیں، اساتذہ کی تنخواہ وفاقی وزارت تعلیم دیتی ہے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالخبیر آزاد نے کہا کہ مدارس اسلام کے قلعے ہیں، ان کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے، یہاں تمام مسالک کے علما کرام موجود ہیں، میں سمجھتا ہوں ہم سب اپنا اپنا کردار ادا کریں، ہم سب کو دہشتگردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔
مدرسے جانے والے بچے کی رجسٹریشن کیوں نہ ہو؟ خرم نواز گنڈاپور
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ ایک معاہدے کے تحت یہ سارا نظام کھڑا کیا گیا، جو معاہدہ طے پایس گیا وہ کسی پر بار گراں نہیں تھا، اس وقت ہم ایف اے ٹی ایف کے گھنے بادلوں کے نیچے تھے، دنیا میں عسکریت پسندی اور دہشتگردی کی باتیں ہورہی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ آج مدارس رجسٹرڈ ہوچکے ہیں، ان میں شفافیت ہے، اکثر بڑے مدارس آڈٹ بھی کروا رہے ہیں، دینی اور عصری تعلیم ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے، جتنی بھی تحقیقات ہوئیں وہ مدارس کی مرہون منت ہیں، ہم کیوں مدارس کو صرف دینی معاملات تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ مدرسہ رجسٹرڈ ہوجاتا ہے تو اس کی شاخوں کو رجسٹریشن کی ضرورت نہیں، جب ایک بچہ مدرسہ جارہا ہے تو اس کی رجسٹریشن کیوں نہ ہو، جب مدرسے رجسٹرڈ ہوں گے تو پتا ہوگا کہ کس مدرسے میں کون جارہا ہے۔
دینی تعلیم کے بورڈز میں اضافہ ہونا چاہیے، راغب نعیمی
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل راغب نعیمی نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ مدارس کو بیرونی ایجنڈے سے کوئی خطرہ نہیں ہے، ہم مدارس کو مزید مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، مدارس کے بورڈز میں اضافہ تعلیم میں اضافہ ہے، حکومت کی پالیسی ہے کہ ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی بنے، دینی تعلیم کے بورڈز میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ مدارس کا معاملہ تعلیمی ہے، اسے سیاسی اکھاڑہ نہ بنایا جائے، ایچ ای سی اب بھی ایم اے کے مساوی ڈگری دیتی ہے، تجویز دیتا ہوں کہ اب بی ایس کے مساوی ڈگری دی جائے۔
مولانا جذبات میں نہ آئیں، علما کرام کو نہ للکاریں، علامہ جواد نقوی
اجلاس سے خطاب کرے ہوئے علامہ جواد نقوی نے کہا کہ ملک پہلے ہی بحرانوں کا شکار ہے، ایک مزید بحران لایا گیا ہے، سوسائٹی ایکٹ کے تحت مدارس کا اندراج ہوا، پاکستان بننے کے بعد مدارس کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی چارہ جوئی نہیں ہوئی، حکومت کا مدارس بنانے میں زیرو کردار ہے۔
علامہ جواد نقوی کا کہنا تھا کہ سرکاری ادارے خود سوچ رہے تھے کہ مدارس کو کس کھاتے میں ڈالا جائے، بہت سارے مدارس نے خود کو سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹر نہیں کروایا تھا، دہشتگردی، عسکریت پسندی کو مدارس سے جوڑ دیا گیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مدارس کو ایک شناخت دی جائے، طے پایا تھا کہ مدارس کو وزارت تعلیم سے منسلک کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: مدارس پر کوئی بیرونی سازش نہیں ہورہی، علامہ طاہر اشرفی
انہوں نے کہا کہ مدارس رجسٹریشن کے معاملے پر مولانا فضل الرحمان سے مذاکرات کرنے چاہییں، آج مدارس اور علما آمنے سامنے آگئے ہیں، ہم ہرگز مدارس کا تصادم نہیں چاہتے، مولانا جذبات میں نہ آئیں، علما کرام کو نہ للکاریں، مدرسوں میں یہ فضا بن گئی تو علم میں تعصب پیدا ہوجائے گا، مدرسوں کو سیاست سے پاک رکھا جائے، مدارس کو تجارت، فرقہ واریت اور دہشتگردی سے دور رکھا جائے، خدشہ ہے ہمارے مدارس بند نہ ہوجائیں، حکومت مذاکرات کرے اور مدارس بنانے کے لیے پلاٹ الاٹ کرے۔
مولانا طیب طاہری نے کہا کہ یہ معلوم تھا کہ حکومت 5 سال کے لیے ہوتی ہے، اس کے بعد الیکشن ہوتے ہیں، یہ نہیں پتا تھا کہ 5 سال بعد مدارس دوبارہ رجسٹرڈ ہوتے ہیں، اکتوبر میں اعلان کیا گیا تھا کہ مدارس وزارت تعلیم سے منسلک ہوں گے۔
مولانا فضل الرحمان کو معافی مانگنی چاہیے، مولانا عبدالرحیم
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مفتی عبدالرحیم نے کہا کہ اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ دینی مدارس کو وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک ہونا چاہیے یا وزارت صنعت و تجارت کے ساتھ، 1835 میں انگریزوں نے دینی تعلیم کو تعلیم سے الگ کردیا، علما کا 184 سال سے یہی مطالبہ ہے کہ دینی تعلیم کو تعلیم تصور کیا جائے، 2019 میں ہمارا مطالبہ پورا ہوا، 3 سال مذاکرات ہوئے، ہمیں حل کی طرف آنا چاہیے، معاہدے پر 5 بورڈز کے سربراہان کے دستخط تھے، آج یہاں 10 اور بورڈز موجود ہیں، آج یہ 15 بورڈز مل کر اس معاہدے کو نافذ کریں اور اگر معاہدے میں کوئی کمی ہے تو اسے مل کر دور کریں۔
انہوں نے کہا کہ مدارس کو صنعت و تجارت کے ماتحت کرنا سمجھ سے بالا تر ہے، وزارت تعلیم سے منسلک ہونے میں جن مسائل کا سامنا ہے، انہیں حل کرنا چاہیے، کچھ لوگ حکومت کو بلیک میل کرکے اپنا ایجنڈا چلا رہے ہیں، مدارس، اسکول اور کالجز کو سیاست سے نہ جوڑا جائے، اگر ریاست اور سیاسی نظام مجبور ہے تو ہمیں وزارت تعلیم کے ماتحت رہنے دیا جائے، جو وزارت صنعت و تجارت کے ماتحت جانا چاہتے ہیں انہیں اس وزارت کے تحت کردیا جائے، وہ مدارس کے نہیں بلکہ سیاست کے نمائندہ ہیں، مولانا فضل الرحمان کو معافی مانگنی چاہیے، مولانا صاحب بتائیں کہ وہ کیسے مدارس کے نمائندے ہیں۔
اجلاس میں کیا طے پایا؟
چیئرمین علما کونسل حافظ طاہر اشرفی نے اجلاس کے آخر میں علما کے متفقہ فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مدرسہ عربیہ کے بورڈ کے ذمہ داران کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ موجودہ نظام مدارس کو برقرار رکھا جائے، کسی بھہ صورت ڈی جی آر ای کے نظام کو ختم نہیں کرنا چاہیے اور مدارس کو نظام تعلیم سے ہی وابستہ رکھا جائے، حکومت کسی بھی پریشر میں نظام مدارس کو تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے، اس نظام سے لاکھوں طلبا کا مستقبل وابستہ ہے، اس نظام کو تبدیل کرنے کا مقصد لاکھوں طلبا کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہوگا، جس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی، ایک طرف 5 رجسٹرڈ بورڈز ہیں، دوسری طرف 10 بورڈز بھی یہاں موجود ہیں جن کا انکار کسی صورت نہیں کیا جاسکتا، حکومت سے گزارش ہے کہ مدارس اور تعلیم سے متعلق کسی بھی قانون سازی کے لیے تمام بورڈز کے نمائندوں کو اعتماد میں لیا جائے، ان سے مشاورت کی جائے، ہم بھی پاکستانی ہیں، اس ملک کے شہری ہیں، ہم اس ملک کے نظام کے تحت چل رہے ہیں۔
مسئلے کا حل سب کے لیے قابل قبول ہونا چاہیے، عطا تارڑ
وفاقی وزیر عطا تارڑ نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ مقصد کے حصول کے لیے دیکھا جاتا ہے کہ اسے بناتے ہوئے مقصد پورے ہونگے، 2018 میں تمام علما کرام کی مشاورت سے مدارس کو قومی دھارے میں لایا گیا، مدارس کا سب سے اہم جز طلبا ہیں، ان کا نقصان یا ان سے امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے، ملک کی تمام جامعات وفاقی وزارت تعلیم سے وابستہ ہیں، جو بھی مدرسے سے فارغ ہوتا ہے اسے وہ تمام مواقع کیسے میسر آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اس لیے کیا گیا تھا تاکہ ایک ہی چھتری تلے تمام طلبا کو سہولتیں ملیں، جب تک حقیقت تسلیم نہیں کریں گے مسئلے کے حل جئ طرف نہیں بڑھ سکتے، جو بل آیا وہ قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے ایکٹ نہیں بن سکا، جب تک حقیقت تسلیم نہیں کریں گے تو مسئلے کے حل کی طرف نہیں بڑھ سکیں گے۔
عطا تارڑ نے کہا کہ علما نے جتنی تجاویز دی ہیں ہم نے نوٹ کرلی ہیں، علما کی تجاویز پر مشاورت کے بعد ان کا حل نکالیں گے، ان تجاویز کو حکومت کے سامنے رکھا جائے گا، ایسا نہیں کہ حکومت آپ کی تجاویز سے ناواقف ہے، فضل الرحمان قابل احترام ہیں، ان کی تجاویز بھی سنیں گے، چاہیں گے اس مسئلے کا حل ایسا نکلے جو سب کے لیے قابل قبول ہو، دہشتگردی اور اس اس کے مقابلے کے لیے آگاہی ضروری ہے۔
فیصلہ ہونے تک مدارس کا الحاق وزارت تعلیم کے ساتھ ہی رہے گا، خالد مقبول صدیقی
وفاقی وزیر مذہبی امور چوہدری سالک حسین نے کہا کہ مدارس سے فارغ ہونے والے طلبا کے پاس بھی تمام آپشن ہونے چاہییں، مدارس کے طلبا کے مستقبل کے لیے جو ممکن ہوا وہ بہتری لائیں گے۔
وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ یہ قومی مسئلہ نہیں بلکہ قومی حوصلہ ہے جس کے لیے علما نے اتحاد سے فیصلہ کیا، مدارس وزارت تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن کریں، رجسٹریشن کا معاملہ مدارس کو کنٹرول کرنے کے لیے نہیں ہے، جب تک علما فیصلہ نہیں کریں گے تب تک مدارس کا الحاق وزارت تعلیم کے ساتھ ہی رہے گا۔