26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے وجود میں آنے والا آئینی بینچ اپنی ایک ماہ کی مدت میں متعدد اہم فیصلے کر چُکا ہے۔ ان اہم فیصلوں میں 9 مئی ملزمان کے فوجی عدالتوں میں چل رہے ٹرائل کے فیصلوں کی اجازت دینا شامل ہے۔ اس کے علاوہ آئینی بینچ نے 12 دسمبر کو 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کیا اور یقیناً ان درخواستوں پر سماعت دلچسپی سے خالی نہ ہو گی۔
یہ بھی پڑھیےکیا آئینی بینچوں کی وجہ سے مقدمات مزید تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں؟
آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بینچز کے لیے قائم پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے 13 نومبر کے اجلاس میں 14 نومبر سے مقدمات کی سماعت کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں رجسٹرار آفس کو کاز لسٹ جاری کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ آئینی بینچ نے متعدد درخواست گزاروں کو فضول مقدمے بازی پر جرمانے بھی عائد کیے جن میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ بھی شامل ہیں۔
1993 سے چلا آ رہا آئینی بینچ کا پہلا مقدمہ
دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی اور اس سے ہونے والے نقصانات اس وقت بہت بڑا مسئلہ بن چکے ہیں۔ آئینی بینچ نے 14 نومبر کو پہلا مقدمہ ملک میں بڑھتی ہوئی آلودگی کے بارے سنا اور اس سلسلے میں چاروں صوبوں سے رپورٹس طلب کیں۔ مذکورہ مقدمہ 1993 سے چلا آ رہا ہے اور سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اُٹھایا ’ کیا 1993 سے آج تک سپریم کورٹ نے ہی یہ کیس سننا ہے‘۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دئیے کہ ’ فلیٹ کلچر کو فروغ دیں لازمی نہیں کہ چھ چھ کنال کے بنگلے بنائے جائیں۔ زرعی زمینوں پر ڈی ایچ ایز اور ہاؤسنگ سوسائیٹیز بنائی جا رہی ہیں‘ اس مقدمے میں آئینی بینچ نے چاروں صوبوں سے رپورٹس طلب کی تھیں۔
یہ بھی پڑھیےسپریم جوڈیشل کمیشن نے 7 رکنی آئینی بینچ تشکیل دے دیا، جسٹس امین الدین سربراہ مقرر
22 نومبر کو جنگلات کی کٹائی سے متعلق ایک مقدمےمیں آئینی بینچ نے ریمارکس دئیے کہ جنگلات کی زمین کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کی جا سکتی۔
15 نومبر کو آئینی بینچ کے سامنے غیر ملکی بنک اکاؤنٹس چھپانے اور مبینہ لوٹی ہوئی رقم کی ریکوری کا مقدمہ زیرِ سماعت آیا جس میں آئینی بینچ نے ایف آئی اے اور ایف بی آر حکام کو نوٹس جاری کر کے رپورٹس طلب کر لی تھیں۔
چھوڑ دیں قاضی فائز عیسٰی کی جان
سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تقرری کے خلاف مقدمے میں مذکورہ ریمارکس تھے جسٹس مسرت ہلالی کے جس میں درخواست گزار ریاض حنیف راہی نے 2009 میں قاضی فائز عیسٰی کی بطور چیف جسٹس تقرری کے عمل کو چیلنج کر رکھا تھا۔
یہ بات ذہن نشین کر لیں آئینی بنچ ازخود نوٹس لے سکتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر
15 نومبر کو آئینی بینچ کے سامنے ایک مقدمہ زیرِ سماعت آیا جو انسدادِ دہشت گردی سے متعلق سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس تھا۔ اس مقدمے میں درخواست گزار وکیل منیر پراچہ نے جب عدالت سے کہا کہ اس کیس میں مزید کارروائی کی ضرورت نہیں، 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت اب سپریم کورٹ ازخود نوٹس نہیں لے سکتی تو جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ وکیل صاحب! ترمیم کے بعد صرف پروسیجر تبدیل ہوا ہے، سپریم کورٹ اب بھی ازخود نوٹس لے سکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ اور سابق وفاقی محتسب کا تنازع
یہ دلچسپ مقدمہ تھا جس میں سابق وفاقی محتسب یاسمین عباسی کی جانب سے ہراسانی کے ملزم کے خلاف کارروائی کے احکامات پر اس وقت کے لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے حکم امتناع جاری کر دیا تھا لیکن یاسمین عباسی نے مقدمے کی کارروائی جاری رکھی۔ بعد ازاں وفاقی محتسب نے لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منصور علی شاہ نے وفاقی محتسب کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے۔ اس مقدمے کو آئینی بینچ نے دوسری سماعت پر نمٹا دیا۔
یہ بھی پڑھیےآئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان اور دیگر 6 ججز کون ہیں؟
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے خلاف مقدمہ
19 نومبر کوجسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے عدم پیروی پر درخواست خارج کردی جبکہ رجسٹرار آفس کی جانب سے درخواست کے ناقابلِ سماعت ہونے پر اُٹھائے جانے والے اعترضات برقرار رہے۔
آپ ہم سے غیر آئینی کام کیوں کروانا چاہتے ہیں؟
20 نومبر کو مولوی اقبال حیدر کی جانب سے دائر کردہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی تو درخواست گزار نے کہا کہ چاہتا ہوں کہ کسی مقدمہ میں اس معاملہ کو دیکھا جائے، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ ہم سے غیر آئینی کام کیوں کرانا چاہتے ہیں، امیدواران کی مرضی ہے سیاسی جماعت میں شامل ہوں یا نہ ہوں۔
اراکین اسمبلی کس کی ہدایت پر ووٹ ڈالیں پارٹی سربراہ یا پارلیمانی سربراہ؟
21 نومبر کو آئینی بینچ نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے حمزہ شہباز کو وزیراعلٰی کے منصب سے ہٹائے جانے کے خلاف ان کی درخواست پر سابق وزیراعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو نوٹس جاری کر دئیے تھے، تاہم اس مقدمے کی دوسری سماعت ابھی تک نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس اختیارات سے تجاوز کیس
21 نومبر ہی کو ایک مقدمہ زیرسماعت آیا جس میں وکیل میاں داؤد ایڈووکیٹ نے الزام عائد کیا کہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ امیر حسین بھٹی نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل ٹربیونل میں اپنے ملازمین کے خلاف تمام کیسز ختم کردیے، مذکورہ اقدام اختیارات کا غلط استعمال ہے۔ میاں داؤد ایڈووکیٹ نے مزید الزام عائد کیا کہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریٹائرمنٹ سے پہلے ملازمین کو ایڈوانس انکریمنٹ دیے، اس پر آئینی بینچ نے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی تھی۔ اس مقدمے کی دوسری سماعت اب تک نہیں ہوئی۔
نیب سے داد رسی نہ ہو تو سپریم کورٹ کی بجائے ہائیکورٹ جائیے گا؛ جسٹس جمال خان مندوخیل
26 نومبر کو آئینی بینچ نے جماعت اسلامی کی درخواست نمٹا دی جس میں جماعت اسلامی نے استدعا کی تھی پانامہ کیس میں دیگر افراد کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ جماعت اسلامی نے اس سلسلے میں آئینی بینچ کو یقین دہانی کروائی کہ وہ اس سلسلے میں نیب سے رجوع کریں گے۔
آئینی بینچ ٹوٹ گیا
02 دسمبر کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ، جسٹس عالیہ نیلم کی تعیناتی کے خلاف سماعت کرنے والا آئینی بینچ ٹوٹ گیا۔ جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل نے کیس سننے سے معذرت کرلی۔ دونوں جج صاحبان نے کہا کہ ہم اس جوڈیشل کمیشن کے ممبر ہیں جس نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی تعیناتی کی۔
عدالت اپنا اعتماد دیتی ہے نجکاری اچھے طریقے سے کریں،جسٹس جمال خان مندوخیل
5 دسمبر کو آئینی بینچ نے پی آئی اے نجکاری کے خلاف سپریم کورٹ کا حکم واپس لے لیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نجکاری کے لیے عدالت کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدالت اپنا اعتماد دیتی ہے نجکاری اچھے طریقے سے کریں۔
ایف آئی اے عدالت کو مطمئن کرے کہ حساس اداروں میں سیاسی سیل ختم کرنے کے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہو چکا ہے؛ جسٹس جمال خان مندوخیل
10 دسمبر کو 1990 کے انتخابات کے دوران سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق اصغر خان کیس کی سماعت ہوئی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی حکم کے بعد حساس اداروں میں سیاسی سیل ختم کر دئیے گئے۔ جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ایف آئی اے عدالت کو مطمئن کرے کہ حساس اداروں میں سیاسی سیل ختم کرنے کے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہو چکا ہے اور وزارتِ دفاع بھی رپورٹ جمع کرائے۔
11 دسمبر کو آئینی بینچ نے لاہور اورنج لائن میٹرو سمیت پنجاب میں میگا پراجیکٹس کے بارے میں ازخود نوٹس نمٹا دیا جب ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ تمام پراجیکٹس مکمل ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیےسپریم کورٹ میں آئینی بینچ کا تذکرہ، ججوں کے دلچسپ ریمارکس
11 دسمبر کو آئینی بینچ نے 1996 میں محترمہ بےنظیر بھٹو کی حکومت گرائے جانے سے متعلق 28 سال پرانے مقدمے کی سماعت کی۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت گرائے جانے کے حوالے سے اس وقت کے صدر مملکت سردار فاروق احمد خان لغاری نے ایک وجہ یہ بتائی تھی کہ بے نظیر حکومت نے خفیہ اداروں کو سیاستدانوں اور اہم شخصیات کے فون ٹیپ کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس مقدمے میں جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا فون ٹیپنگ کے حوالے سے کوئی قانون موجود ہے؟
12 دسمبر کو آئینی بینچ نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے مقدمے میں فوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے کی اجازت دی۔