آنے والے دنوں میں حکومت کی آئینی اور قانونی حیثیت کا انحصار سپریم کورٹ کے آئینی بینچ پر ہے جس کے سربراہ کے لیے آج جوڈیشل کمیشن نے جسٹس امین الدین خان کے نام کی منظوری دی۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ ،اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، پاکستان بار کونسل کے اختر حسین، فاروق ایچ نائیک، آفتاب احمد اور روشن خورشید بروچہ نے ان کے حق میں ووٹ دیا۔
آئینی بنیچ کی سربراہی کا معاملہ طے پا جانے کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی ہیئت بھی تبدیل ہو گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم جوڈیشل کمیشن نے 7 رکنی آئینی بینچ تشکیل دے دیا، جسٹس امین الدین سربراہ مقرر
گزشتہ روز کی گئی آئینی ترمیم میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا سربراہ چیف جسٹس، اس کے بعد سینیئر پیونی جج اور آئینی بینچ کا سربراہ ہو گا۔ اس لحاظ سے بینچ بنانے اور مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کرنے والی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اب چیف جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل ہو گی۔
جسٹس امین الدین خان کا نام 20 ستمبر کو اس وقت میڈیا میں آیا جب سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے اجرا کے بعد انہیں جسٹس منیب اختر کی جگہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا رکن بنای۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کی مشروط اجازت دی۔
مزید پڑھیے: آئینی بینچ کی تشکیل کے ساتھ ہی ججز کمیٹی کی ہیئت بھی تبدیل
پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے متعلق مقدمے میں جسٹس امین الدین خان اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے 5 ججز میں شامل تھے اور انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ پی ٹی آئی اس مقدمے میں فریق ہی نہیں تھی اس لیے آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت ان کو ریلیف نہیں دیا جا سکتا۔
7 جون کو نیب ترامیم مقدمے میں جب پہلی بار بانی پی ٹی آئی عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو سابق چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے گفتگو سے گریز کیا اور عمران خان سے زیادہ بات چیت جسٹس امین الدین خان نے کی۔
انہوں نے عمران خان سے کہا کہ وہ موضوع سے ہٹ کر گفتگو نہ کریں اور سپریم کورٹ میں بذریعہ ویڈیو لنک پیشی ایک غیر معمولی ریلیف ہے جو ان کو دیا گیا ہے۔
جسٹس امین الدین خان کا کیریئر
جسٹس امین الدین خان یکم دسمبر 1960 کو ملتان میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے زمانے کے معروف وکیل و قانون دان خان صادق محمد احسن مرحوم کے گھرانے سے ہیں جبکہ ان کے والد بھی ایک وکیل تھے۔
مزید پڑھیں: آئینی بینچز اگلے ہفتے سے کام شروع کر دیں گےِ، وفاقی وزیر قانون
انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کنڈر گارٹن اسکول ملتان سے حاصل کی اور گورنمنٹ مسلم ہائی اسکول ملتان سے اپنی ثانوی تعلیم مکمل کی۔ انہوں نے فلسفے کے مضمون کے ساتھ بی اے کیا اور اس کے بعد سنہ 1984 میں یونیورسٹی لا کالج ملتان سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے والد کے ساتھ بطور جونیئر وکیل پریکٹس کا آغاز کیا۔
سنہ1987 میں وہ لاہور ہائیکورٹ کے وکیل کے طور پر رجسٹر ہوئے جبکہ سنہ 2001 میں وہ سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔ بطور وکیل جسٹس امین الدین خان نے زیادہ مقدمات سول لا سے متعلق کیے اور انہی میں ان کی دلچسپی زیادہ رہی۔ سپریم کورٹ میں وہ جائیداد، شفع اور وراثت سے متعلق مقدمات میں بطور وکیل پیش ہوتے رہے ہیں۔
12 مئی 2011 کو جسٹس امین الدین خان کو لاہور ہائیکورٹ کا جج مقرر کیا گیا جہاں انہوں نے لاہور ہائیکورٹ کے ملتان اور بہاولپور بینچز کے ساتھ ساتھ پرنسپل سیٹ پر بھی سینکڑوں مقدمات کے فیصلے کیے۔
21 اکتوبر 2019 کو انہیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔
جسٹس امین الدین خان یونیورسٹی لا کالج ملتان میں بطور لیکچرر اور ممتحن بھی کام کرتے رہے۔ بطور جج لاہور ہائیکورٹ وہ مختلف یونیورسٹیوں کے سینڈیکٹ ممبر بھی رہے جن میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور بھی شامل ہے۔
آئینی بینچ کے دیگر6 ججز کون ہیں؟
آئینی بینچ میں جسٹس عائشہ ملک، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
آئینی بینچ کے جج اور مخصوص نشستوں کا مقدمہ
جسٹس جمال خان مندوخیل
جسٹس جمال خان مندوخیل سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بہت قریب رہے ہیں اور مخصوص نشستوں کے مقدمے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے مشترکہ نوٹ لکھا جس میں انہوں نے اکثریتی فیصلے کی مخالفت کی اور اس فیصلے کو آئین و قانون کے منافی قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیے: آئینی بینچ کی تشکیل سے عام آدمی کو انصاف میں آسانی ہوگی، وزیر اعظم
تاہم دونوں جج صاحبان نے یہ لکھا کہ 39 امیدواران جنہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹس جمع کرائے تھے الیکشن کمیشن نے انہیں غلط طور پر آزاد امیدوار قرار دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے الوداعی ریفرنس میں، جسٹس محمد علی مظہر نے شرکت کی۔ مخصوص نشستوں سے متعلق مقدمے میں جسٹس محمد علی مظہر اکثریتی 8 رکنی فیصلے کا حصہ تھے۔ اس سال مارچ میں وفاقی جوڈیشل اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ایک جج کو عدالت میں صبر کے ساتھ بیٹھنا چاہیے اور غصے میں نہیں آنا چاہیے۔
جسٹس عائشہ ملک
جون 2022 میں سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج نامزد ہوئیں تو ان کی سنیارٹی پر اعتراض اٹھایا گیا اور کہا گیا کہ سنیارٹی کے اصول کو نظرانداز کرتے ہوئے انہیں جج بنایا گیا ہے۔
پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے مقدمے میں جسٹس عائشہ ملک اکثریتی 8 رکنی فیصلے کا حصہ تھیں جنہوں نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا۔
20 اکتوبر کو ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اب یہ سوال ہمیشہ پیدا ہوا کرے گا کہ کون سا مقدمہ آئینی بینچ میں جانا چاہیے جس پر جسٹس عائشہ ملک نے ازراہ تفنن کہا کہ اب آپ اور آپ کے آئینی بنیچ یہ فیصلہ کریں گے۔
سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے الوادعی ریفرنس میں شرکت نہ کرنے والوں میں جسٹس عائشہ ملک بھی شامل تھیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی
جسٹس حسن اظہر رضوی مخصوص نشستوں کے معاملے میں پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دینے والے 8 اکثریتی ججز کے فیصلے کا حصہ تھے۔
نیب ترامیم نظرثانی مقدمے میں جسٹس حسن اظہر رضوی نے اکثریتی فیصلے سے اتفاق جبکہ فیصلے کی وجوہات سے اختلاف کیا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے 23 اکتوبر کو کہا کہ عدلیہ میں اختلاف رائے مہذب انداز میں ہونا چاہیے۔ اختلاف رائے کی بنیاد آئینی اصول ہونے چاہییں اور افراد کو ٹارگٹ نہ کیا جائے۔
جسٹس مسرت ہلالی
جسٹس مسرت ہلالی بھی آئینی بینچ کا حصہ بنی ہیں۔ وہ بوجہ علالت اس فل کورٹ کا حصہ نہیں تھیں جس نے مخصوص نشستوں کے مقدمہ سنا اور فیصلہ کیا تاہم وہ اس بینچ کا حصہ تھیں جس نے 13 جنوری کو پی ٹی آئی انتخابی نشان مقدمے کا فیصلہ کیا جس میں پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلوں کو برقرار رکھتے ہوئے پی ٹی آئی کی اپیلیں مسترد کر دی گئی تھیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان
جسٹس نعیم اختر افغان، سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے سپریم کورٹ کے جج بنے اور وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بہت قریب رہے۔ مخصوص نشستوں کے مقدمے میں جسٹس نعیم اختر افغان اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے پانچ ججز میں شامل تھے اور انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ پی ٹی آئی اس مقدمے میں فریق ہی نہیں تھی اس لیے آئین کے آرٹیکل 175 اور 185 کے تحت اس کو ریلیف نہیں دیا جا سکتا۔
اراکین پارلیمنٹ کی نااہلی سے متعلق آرٹیکل 63 اے پر جب نظر ثانی اپیل سماعت کے لیے مقرر ہوئی تو ابتدائی طور پر جسٹس منیب اختر اس بینچ کا حصہ تھے جنہوں نے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا۔ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ کا حصہ بنایا۔ اس بینچ نے متفقہ طور پر حکومت کی اپیل منظور کی۔