کامران نے جہاز میں بیٹھ کر اپنے والدین کو سرپرائز دینا تھا کہ وہ ملک سے باہر جارہا ہے کیوں کہ اسے سرپرائز دینا بہت پسند تھا، وہ بہت خوش تھا کیونکہ اس کی من پسند نوکری اب اسے ترکیہ میں کرنا تھی، کامران کے ساتھ اس کی بیوی اور ایک بچہ بھی 2014 میں اپنے بہتر مستقبل کے لیے کراچی سے ترکیہ کے لیے روانہ ہوئے، اس نوکری کی خاطر کامران 3 بار دبئی گیا جہاں اس کے انٹرویوز ہوئے لیکن کامران کے والد انہیں بار بار منع کرتے رہے کہ باہر نا جاؤ لیکن اس نے ایک نہ مانی۔ اب اس کو ملک سے گئے ہوئے 10 برس گزر گئے ہیں لیکن کامیابی کے بجائے اس کے اہل خانہ بھی دربدر ہوچکے ہیں۔
کراچی کے رہائشی محمد محی الدین جو 10 سال سے اپنے بیٹے، بہو اور پوتوں کے انتظار میں ہیں، کہتے ہیں کہ میرا بیٹا محمد کامران آئل ٹیکنیشن تھا اور پاکستان میں برٹش کمپنی کے ساتھ نوکری کررہا تھا، اس وقت اسے ایک آئل کمپنی نے ترکیہ میں نوکری کی پیشکش کی اور کامران دسمبر 2014 میں اپنی بیوی اور ایک بچہ جس کی عمر اس وقت 5 برس تھی کے ساتھ ملک چھوڑ کر ترکیہ چلا گیا۔
’یہ ایک جال تھا‘
محی الدین نے کہاکہ ان کے اندازے کے مطابق ان کے بیٹے سمیت دیگر کئی لوگوں کے لیے اچھی نوکری کی پیشکش کا ایک جال بنا گیا تھا جس میں داعش نے انہیں پھنسایا اور میرے بیٹے سمیت نجانے کتنے لوگ بہتر مستقبل کے لیے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ اس جال میں پھنسے اور دربدر ہوگئے ہیں۔
’داعش کے لوگ گھسیٹ کر انہیں اپنے علاقوں میں لے گئے‘
انہوں نے کہاکہ ترکیہ میں شام کی سرحد کے ساتھ ایک آئل فیلڈ تھی، میرے بیٹے اور دیگر لوگوں کو وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوچکا ہے، کیوں کہ ان کا پالا داعش سے پڑ چکا تھا اور وہ لوگ انہیں ترکیہ سے اپنے علاقوں کی طرف لے گئے، سب سے پہلے انہوں نے میرے بیٹے کو اس کے بیوی بچے سے الگ کیا۔
’جب ایک تکلیف دہ دور کے بعد داعش کو شکست ہوگئی‘
کامران کے والد کا کہنا ہے کہ اس خاندان کو ایک دوسرے سے رابطے کی اجازت نہیں تھی لیکن چوری چھپے جیسے موقع ملتا یہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے کی کوشش کرتے تھے یہ ایک تکلیف دہ وقت تھا اور پھر داعش کو شکست ہوگئی تو ان کے بیٹے سمیت دیگر یرغمالیوں کو جان بچانے کا موقع ملا لیکن انہیں علم نہیں تھا کہ سر پر ایک اور بلا کھڑی ہے۔
’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘
محی الدین بتاتے ہیں کہ جب میرے بیٹے اور دیگر یرغمالیوں کی داعش سے جان چھوٹی پر وہاں بھاگتے وقت انہیں راستوں کا علم نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ داعش کے مخالف گروپ ’پی کے کے‘ کے ہتھے چڑھ گئے اور اس گروپ نے ہزاروں لوگوں کو حراست میں لیا جن میں میرا بیٹا بھی شامل تھا اور انہیں جیل میں ڈال دیا۔ جس کا نمبر تھا پی او ڈی 1، یہ جیل حقاصہ کے علاقے میں تھی۔
’اس جیل کا علم کیسے ہوا‘
کامران کے والد نے بتایا کہ فروری 2019 میں ان کے پاس ریڈکراس کے توسط سے ایک خط آیا تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا اس جیل میں ہے جبکہ اس کے بیوی بچوں کو ایک کیمپ میں رکھا ہے جس کا نام روج ہے، ان کا کہنا تھا کہ دو کیمپس ہیں ایک روج اور دوسرا الحول جہاں تک الحول کی بات ہے تو یہ بہت بڑا کیمپ ہے اور روج چھوٹا ہے، اس کے بعد کی تمام معلومات انٹرنیٹ کے ذریعے حاصل کی گئی ہیں۔
’بیٹے کا دل دہلا دینے والا خط‘
بیٹے کامران کی جانب سے موصول ہونے والے خط میں بیٹے نے اپنے ماں باپ کی اچھی صحت کی امید ظاہر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ میں اپنی دعاؤں میں آپ دونوں کو ہمیشہ یاد رکھتا ہوں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ بھی مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں، کامران لکھتے ہیں کہ میں ایک جیل میں ہوں اور اللہ سے امید ہے کہ وہ میرے ساتھ ہے اور میری صحت اچھی ہے۔
بیٹے نے خط میں اپنی بہنوں کا احوال پوچھتے ہوئے اپنی بیوی اور بیٹے کے حوالے سے بتایا کہ وہ ایک کیمپ میں ہیں اور ان کی بیوی کی صحت خراب ہے اور اسے سرجری کی ضرورت ہے، امی ابو مجھے معلوم ہے آپ مجھ سے ناراض ہیں لیکن مجھ سے پیار بھی کرتے ہیں میری بیوی سے رابطے میں رہیے گا اور ہمارے لیے دعا کرتے رہیے گا۔
بہو سے رابطہ کیسے ہوا؟
محی الدین بتاتے ہیں کہ ابتدا میں جب ان کا رابطہ ان کی بہو سے ہوا تو اس کا طریقہ یہ تھا کہ ایک کال کیمپ سے کرادی جاتی تھی یا میسج کروایا جاتا تھا، اس کے علاوہ وہاں نہ کوئی نیٹ ورک ہے نہ ہی موبائل رکھنے کی اجازت ہے، ابتدائی رابطے میں یہ بات علم میں آئی کہ عورتیں اور بچے کیمپس میں محصور ہیں جبکہ مردوں کا ان سے رابطہ نہیں، سارے مرد آئل فیلڈ میں کام کرتے ہیں۔ ’جب تک یہ کیمپس داعش کے پاس تھے تو ان خواتین اور بچوں کو آرام سے رکھا ہوا تھا لیکن داعش کو شکست کے بعد مخالف گروپ جب سامنے آیا تو اب حالات تکلیف دہ ہیں‘۔
’اب ان کیمپوں کی حالت تکلیف دہ ہے‘
محی الدین کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق ان کیمپوں کو پہلے این جی اوز کا تعاون حاصل تھا لیکن اب وہاں کے حالات تکلیف دہ ہیں اور اسی وجہ سے میں نے بین الاقوامی اور قومی اداروں سے رابطے تیز کیے لیکن اب تک مجھے کسی قسم کی کوئی کامیابی نہیں مل سکی، لیکن انکا کہنا تھا کہ میں پُرامید ہوں ابھی جو رجیم چینج آیا ہے اس سے شاید ہمارے پیاروں کی واپسی ممکن ہوسکے۔
’جس ملک کے شہری ہیں وہ رابطہ کرکے لے جائیں‘
محی الدین کے مطابق داعش مخالف گروپ کا کہنا ہے کہ یہ جس ممالک کے شہری ہیں وہاں کی حکومت رابطہ کرے اور اپنے شہریوں کو لے جائے، تو حکومت سے درخواست ہے کہ وہ نہ صرف ہمارے بچوں کو بلکہ اور بھی جو پاکستانی وہاں موجود ہیں ان کو واپس لانے کے لیے اقدامات کرے۔
آخر میں محمد کامران کے والد کا کہنا تھا کہ یہ لوگ ان کیمپس سے نہیں نکل سکتے بلکہ یوں سمجھ لیں کہ ناممکن ہے جب تک حکومتی سطح پر کچھ نہ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان، جرمنی، برطانیہ اور یوکرین اپنے شہریوں کو وہاں سے نکال چکے ہیں لیکن ہماری حکومت نے اس سلسلے میں اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا اور ذرائع کے مطابق وہاں سینکڑوں پاکستانی موجود ہیں، مردوں کو اگر وہ نہیں بھی چھوڑتے تو عورتوں اور بچوں کو واپس لایا جا سکتا ہے۔