اپریل 2022 میں جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بھی وزیر اعظم کو آئینی طریقے سے ہٹایا گیا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کا سب سے بڑا خمیازہ صوبہ خیبرپختونخوا کو بھگتنا پڑے گا۔ دو ہاتھیوں کی لڑائی میں چیونٹی کی طرح خیبرپختونخوا کے عوام اُس وقت سے اب تک مسلسل پِس رہے ہیں، سابق وزیراعظم عمران خان کی کرسی جانے کا نقصان سب سے زیادہ خیبر پختونخوا کو اٹھانا پڑا، اور وہ نقصان آج تک یہ صوبہ اور اس کی عوام اٹھا رہی ہے۔
وفاق اور صوبے کے درمیان جو جنگ اپریل 2022 میں شروع ہوئی تھی، اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید شدت آرہی ہے۔ سیاست سے شروع ہونے والی جنگ صوبے اور وفاق کے انتظامی معاملات اور بعد ازاں عوام تک جا پہنچی ہے، جس کے سنگین نتائج مدتوں تک سامنے آتے رہیں گے۔ ایک جانب صوبائی حکومت اپنی ضد اور اَنا پر کھڑی ہے، تو دوسری جانب وفاق بھی ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ ایسے میں جو بھی بحران پیدا ہوتا ہے، اس کا ڈائریکٹ اَثر عوام پر پڑتا ہے۔
8فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد جب نئی حکومتیں قائم ہوئیں تو حالات بالکل 2013 کے جیسے بن گئے، سندھ میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آگئی، پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ ن، جبکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کو مینڈیٹ مل گیا۔ بلوچستان میں 2013 اور آج کی حکومت دونوں کو وفاق سے مکمل حمایت حاصل رہی۔ امید کی گئی کہ اس بار مقابلہ ترقی کا ہوگا۔
وفاقی حمایت بلاشبہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کو حاصل رہے گی، لیکن خیبر پختونخوا اپنے محدود وسائل میں ہر ممکن کوشش کرے گا کہ پنجاب کی سبقت کا مقابلہ کرے، لیکن اب تک جو اعدادوشمار سامنے آئے ہیں وہ حوصلہ افزا نہیں ہیں، خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نے قلیل مدت میں 4 مرتبہ وفاق پر چڑھائی کی کوشش کی ہے، ایک بار سنگجانی، ایک بار لاہور، ایک بار راولپنڈی اور ایک بار ڈی چوک احتجاج کے لیے صوبے کے وسائل بے دریغ طریقے سے استعمال کیے گئے ہیں۔
سیاسی مقاصد کے لیے سیاسی جماعتوں کا حکومتی وسائل استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں، لیکن سیاسی وسائل استعمال کرتے ہوئے صوبے کی ترقی کو نظر انداز کرنا ضرور نئی بات ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت مارچ سے پی ٹی آئی کے پاس ہے، لیکن اگر پہلے 4ماہ کو اس لیے نظر انداز کردیا جائے کہ اس دوران حکومت کو اپنی ٹیم بنانے اور پالیسی سازی میں وقت لگا تو غلط نہیں ہوگا۔ وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی حکومت کا پہلا بجٹ 2024-25 جب پیش کیا گیا تو حکومت نے اس کی ذمہ داری لی اور عوام کو ترقی کی امید دلائی۔ آج اس بجٹ کا نصف وقت گزر گیا، لیکن جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں اس سے حکومتی ترجیحات واضح ہوگئی ہیں۔
خیبر پختونخوا حکومت نے مالی سال کی پہلی ششماہی میں ترقیاتی پروگرام کا صرف 13 فیصد فنڈ استعمال کیا ہے، جو انتہائی قلیل ہے۔ وعدے کے مطابق پیش کیے گئے ترقیاتی بجٹ کو اگر حکومت 100 فیصد مکمل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو اسے اگلے ششماہی میں اپنی رفتار 7 گنا بڑھانی ہوگی، جو کسی انہونی سے کم نہیں ہے۔ صوبے کے ایک ہزار 920 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 417 ارب 24 کروڑ 43 لاکھ روپے سے زائد کا ترقیاتی بجٹ منظور کیا گیا ہے، جس میں مالی سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران 84 ارب 93 کروڑ46 لاکھ روپے سے زائد جاری کیے گئے ہیں، جو مختص رقم کا صرف 20 فیصد بنتا ہے۔
جاری رقم میں 56 ارب 85 کروڑ37 لاکھ روپے ہی خرچ کیے گئے ہیں، جو مختص رقم کا صرف 13 فیصد بنتا ہے۔ بندوبستی اضلاع کے لیے 297 ارب 52 کروڑ82 لاکھ سے زائد کا ترقیاتی فنڈ مختص کیا گیا، جس میں صرف 70 ارب 27 کروڑ روپے ہی جاری کیے گئے، جبکہ محکموں نے صرف 46 ارب 70 کروڑ روپے ہی استعمال کیے ہیں۔
ضم اضلاع کے لیے 119ارب 71کروڑ روپے کا ترقیاتی فنڈ مختص کیا گیا، جس میں 14ارب 66کروڑ جاری ہوئے اور 10ارب 14کروڑ ہی استعمال ہوسکے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اربن پالیسی یونٹ اور محکمہ محنت نے صوبہ بھر میں ترقیاتی فنڈز کی مد میں ایک پائی بھی خرچ نہیں کی ہے، جبکہ صنعت و حرفت، خزانہ، انتظامیہ و عاملہ، بہبود آبادی، معدنیات، اطلاعات و تعلقات عامہ، ہاﺅسنگ اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے قبائلی اضلاع میں ترقیاتی فنڈ کی مد میں کوئی رقم خرچ نہیں کی ہے۔ صوبائی حکومت نے مالی سال کے پہلے 6ماہ میں بلدیاتی حکومتوں کو ترقیاتی پروگرام کی مد میں کوئی رقم جاری نہیں کی ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے لیے مشکلات کافی ہیں، انہوں نے عمران خان کے احکامات کو بھی پورا کرنا ہے، انہوں نے مشکلات سے دوچار پارٹی رہنماﺅں کو بھی بچانا ہے، انہوں نے ورکرز کی تنقید بھی برداشت کرنی ہے، انہوں نے عوامی مطالبات بھی پورے کرنے ہیں اور انہوں نے وفاق سمیت اداروں کیساتھ بنا کر بھی چلنا ہے۔ اتنا سب کچھ کرنا علی امین گنڈاپور کے لیے ممکن نظر نہیں آرہا۔
جو ترقیاتی فنڈز خیبر پختونخوا میں خرچ ہوا ہے، اعدادوشمار کے مطابق وہ 13فیصد تو ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا بیشتر حصہ ان منصوبوں میں تعینات اور بھرتی ملازمین، دفاتر کے اخراجات اور دیگر مدوں میں استعمال ہوا ہے۔ صحت کارڈ کی بحالی کے علاوہ صوبائی حکومت اب تک کوئی قابل ذکر جاری منصوبہ مکمل کرسکی ہے اور نہ ہی اپنا کوئی منصوبہ شروع کرکے مکمل کرنے کے قریب ہے۔
بلاشبہ پی ٹی آئی کا بیانیہ بنانے کا طریقہ کار انتہائی مضبوط ہے، اور یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کو کامیابی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، جس کے مطابق صوبائی حکومت 105ارب روپے اکاﺅنٹ میں سنبھال کررکھے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 6ماہ میں صرف اس محفوظ رقم کے مقابلے میں نصف بھی خرچ نہ ہونا ناکامی سے کم نہیں ہے۔
صوبہ بھر میں ترقیاتی منصوبے جمود کا شکار ہیں، مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں صوبائی حکومت نے ریشنلائزیشن کرتے ہوئے 601 ترقیاتی منصوبوں کو ختم کردیا، جن میں 33 انتظامی محکموں کے 391 منصوبے ڈراپ، 155 کے سکوپ کو محدود جبکہ 55 منصوبوں کو منجمد کردیا گیا۔
اب جو منصوبے جاری ہیں یا نئی منظور ہوئے ہیں، حکومت کے پاس اُس کے لیے بھی فنڈز نہیں ہیں۔ لیکن یہ بھی المیہ ہے کہ صوبائی حکومت اس مالی مشکلات اور بحران کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













