فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے 13 جنوری تک ملتوی کردی ہے، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث پیر کو بھی دلائل جاری رکھیں گے۔
آئینی بینچ میں شامل ججوں نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے سامنے ایک بار پھر سوالات کے انبار لگاتے ہوئے انہیں ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے طریقہ کار پر عدالت کو مطمئن کرنے کی ہدایت کی۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی بینچ نے 9 مئی کے مخصوص ملزمان کے ملٹری ٹرائل پر سوالات اٹھا دیے
جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ جو آفیسر ٹرائل چلاتا ہے کورٹ میں وہ خود فیصلہ نہیں سناتا، ٹرائل چلانے والا افسر دوسرے بڑے افسر کو کیس بھیجتا ہے وہ فیصلہ سناتا ہے، جس آفیسر نے ٹرائل سنا ہی نہیں وہ کیسے فیصلہ دیتا ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ مجھے 34 سال اس شعبہ میں ہوگئے مگر پھر بھی خود کو مکمل نہیں سمجھتا، کیا اس آرمی افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں:فوجی عدالتوں کا کیس: آئین واضح ہے ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کرسکتا، جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس نعیم اختر افغان نے خواجہ حارث سے دریافت کیا کہ ملٹری کورٹس میں کیسے ٹرائل کیا جا رہا ہے اس کے مراحل کیا ہیں سب بتائیں، سب سمجھ رہے ہیں سویلین عدالتوں کی طرح ملٹری کورٹس ٹرائل نہیں ہوتا، ملٹرری کورٹس کے ٹرائل کی کوئی مثال دیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ اور باقی قانون میں فرق ہوتا ہے، آئین کے مطابق یہ تمام بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے، قانون میں معقول وضاحت دی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: آئینی بینچ نے 5 درخواست گزاروں کو کس جرم میں کتنا جرمانہ عائد کیا؟
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کورٹ مارشل کا طریقہ کار دیا ہوا ہے، فیلڈ مارشل میں ڈیفنس وکیل ہوتا ہے وہاں جج نہیں ہوتے۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کا موقف تھا کہ وہ ملٹری ٹرائل کے طریقہ کار کو دلائل کے دوسرے حصے میں مکمل بیان کریں گے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ آرمی ایکٹ اسپیشل قانون ہے، جس کے شواہد اور ٹرائل کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں:فوجی عدالتوں سے سزا سپریم کورٹ کے اختیارات سے تجاوز ہے، عمر ایوب خان
جسٹس نعیم افغان کا کہنا تھا کہ وہ بلوچستان ہائی کورٹ میں کورٹ مارشل کے خلاف مقدمات سنتے رہے ہیں، کورٹ مارشل میں مرضی کا وکیل کرنے کی سہولت بھی ہوتی ہے، فوجی عدالتوں کا ٹرائل بھی عام عدالت جیسا ہی ہوتا ہے۔
جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس دیے کہ عام تاثر ہے کہ فوجی عدالت میں ٹرائل صرف سزا دینے کی حد تک ہوتا ہے، مناسب ہوتا کہ خواجہ حارث آگاہ کر دیتے کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کن مراحل سے گزرتا ہے۔
مزید پڑھیں:شہریوں کا ملٹری ٹرائل؛ جواد ایس خواجہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں نظر ثانی اپیل دائر
جسٹس حسن اظہر رضوی کا کہناتھا کہ فوجی عدالت میں ملزم کے لیے وکیل کے ساتھ ایک افسر بطور دوست بھی مقرر کیا جاتا ہے، ٹرائل میں وکلا کے دلائل بھی شامل ہوتے اور گواہان پرجرح بھی ہوتی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ فوجی عدالت میں جج افسر بیٹھے ہوتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ معاملہ بنیادی حقوق اور آرٹیکل 10 اے کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے، آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے، فوجی افسران کو بنیادی حقوق اور انصاف ملتے ہیں یا نہیں ہم سب کو مدنظر رکھیں گے۔
مزید پڑھیں:کیا عمران خان کا ملٹری ٹرائل ہوگا؟
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ فیصلہ لکھنے کے لیے جیک برانچ کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے خواجہ حارث سے دریافت کیا کہ انہوں نے مثال دی تھی کہ امریکا میں بھی فوجی ٹرائل ہوئے، اگر کسی اور ملک میں ایسا ٹرائل ہوتا ہے تو جج کون ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: ملٹری ٹرائل شروع ہونے سے قبل عدالت کو آگاہ کیا جائے، چیف جسٹس
جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ پوری دنیا میں کورٹ مارشل میں آفیسر ہی بیٹھتے ہیں، خواجہ حارث نے بتایا کہ کورٹ مارشل میں بیٹھنے والے افسران کو ٹرائل کا تجربہ حاصل ہوتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی بولیں؛ ایک آرمی چیف کے طیارے کو ائیرپورٹ کی لائٹس بجھا کر کہا گیا ملک چھوڑ دو، اس واقع میں تمام مسافروں کو خطرے میں ڈالا گیا۔
خواجہ حارث بولے؛ جو بندہ جہاز میں موجود نہیں تھا وہ ہائی جیک کیسے کر سکتا تھا، جس پر جسٹس مسرت ہلالی بولیں؛ اس جہاز میں تھوڑا سا ایندھن باقی تھا پھر بھی رسک پر ڈالا گیا۔
مزید پڑھیں:’جو کرنا ہے کرلو‘، ملٹری کورٹ میں ٹرائل کی چہ مگوئیوں پر عمران خان بول پڑے
خواجہ حارث کا موقف تھا کہ وہ عدالت میں سیاسی بات نہیں کریں گے مگر بعد میں سپریم کورٹ نے جائزہ لے کر تسلیم کیا تھا کہ جہاز میں کافی ایندھن باقی تھا، جسٹس مسرت ہلالی بولیں؛ اس ایک واقع کے باعث ملک میں مارشل لا لگ گیا تھا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ مارشل لا کے بعد بھی وہ ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں چلا، جس پر خواجہ حارث بولے؛ ہائی جیکنگ آرمی ایکٹ میں درج جرم نہیں، اس لیے وہ ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں چل سکتا تھا۔
مزید پڑھیں: سندھ حکومت نے ملٹری کورٹ میں سویلینز ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ چیلنج کردیا
آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان بولے؛ چلیں اس نکتے پر فرق واضح ہو گیا آگے چلیں، اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی بولیں؛ ٹھہریں ایک سوال اور اس میں بنتا ہے، اگر جنگی یا فوجی طیارے کو ہائی جیک کیا جائے پھر ٹرائل کہاں چلے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کے پاس اکثریت ہے، کل ہائی جیکنگ اور 302 بھی آرمی ایکٹ میں ڈال لیں کون روک سکتا ہے، جسٹس مسرت ہلالی بولیں؛ 9 مئی کی ایف آئی آرز میں ساری دفعات انسداد دہشتگردی ایکٹ کی عائد کی گئی تھیں، مجھے نہیں پتا پھر ان دفعات پر فوجی ٹرائل کیسے ہوا۔
مزید پڑھیں:ملٹری کورٹس میں 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل کیسے ہوا؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ویسے تو ملزمان کی تعداد 5 ہزار سے زیادہ تھی، ملٹری کورٹس صرف ان ملزمان کو لے کر گئے جن کی جائے وقوعہ پر موجودگی ثابت تھی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل آج بھی مکمل نہ ہوسکے، جس پر سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے سماعت ایک مرتبہ پھر ملتوی کردی، خواجہ حارث پیر 13 جنوری کو اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔