پھینیاں کھائے بغیر سحری مکمل ہی نہیں ہوتی ہے، رمضان میں پھینی کھانے کا الگ ہی مزہ ہوتا ہے۔ راولپنڈی کے بنی چوک میں 47 برس پرانی دکان اپنی معیاری پھینیوں کی وجہ سے کافی مشہور ہے۔
27 سالہ دکاندار زرغام پچھلے 10 برس سے پھینیوں کا کام کر رہے ہیں۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے زرغام کا کہنا تھا کہ ‘پھینیاں تیار کرنے کے لیے پانی، گھی اور میدہ درکار ہوتا ہے۔ میدے کی بوری کو پھینیوں کی شکل اختیار کرنے میں تقریباً 5 سے 6 گھنٹے لگتے ہیں۔ پھینیاں ہاتھ کی محنت سے بنتی ہیں اور اس کی تیاری میں 5 سے 6 کاریگر کام کرتے ہیں۔ 5 گھنٹوں کی محنت کے بعد تقریباً 100 کلو مال بن کر آتا ہے’۔
زرغام نے ایک سوال پر بتایا کہ ‘سارا سال یہ کام چلتا ہے مگر رمضان کی آمد پر اس قدر زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ ہمارے لیے اسے مینیج کرنا مشکل ہوجاتا ہے’۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ‘وہ آدھے راولپنڈی کو پھینیاں سپلائی کرتے ہیں۔ رمضان المبارک کے مہینے میں روزانہ تقریباً 600 کلو پھینیاں فروخت کرتے ہیں’۔
عید کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ‘جیسے عید میں اب چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں تو کام کا رش اس قدر زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ کاریگر دن رات کام کرتے ہیں مگر اس کے باوجود ہم تمام آرڈر لینے سے قاصر رہتے ہیں’۔
زرغام نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں پھینیوں کی بنیاد ان کے والد نے رکھے تھی۔
پھینیوں کا زیادہ استعمال خطرناک کیوں ہے؟
پھینی دیر سے ہضم ہوتی ہے اور معدے میں دیر تک ٹھہری رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سحری میں ان کا استعمال روزے کی حالت میں توانا رہنے کے لیے مفید ہے مگر ہر روز کا استعمال انسانی صحت کے لیے خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
پھینیاں روزانہ کھانے سے انسان بہت سے سنگین صحت کے مسائل میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ اسی حوالے سے راولپنڈی ایم ایچ ہسپتال کے ریزیڈنٹ انٹرنل میڈیسن اور ماہر ذیابیطس ڈاکٹر اہتشام نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘وہ غذائیں جن میں گھی زیادہ ہو اور انہیں روزمرہ کے معمول میں شامل کیا جائے تو وہ انسانی صحت پر بُری طرح اثر انداز ہوتی ہیں’۔
انہوں نے پھینیوں سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘پھینیاں بنانے کے عمل پر غور اور اسے بنانے کے لیے درکار اشیا کو دیکھا جائے تو یہ بات کہنے پر کوئی تعجب نہیں ہوگا کہ اس سے ایم آئی، سی وی اے اور پیریفرل آرٹیریل امراض سمیت دل کے امراض کا خطرہ بہت زیادہ ہوسکتا ہے۔ خاص طور پرذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کے مریض اور وہ لوگ جو امراض قلب کی مضبوط خاندانی تاریخ رکھتے ہوں، وہ تلی ہوئی اور بہت زیادہ گھی سے بنی ہوئی غذاؤں سے روز کی روٹین میں پرہیز کریں کیونکہ ایسی غذائیں ان کی صحت کو بُری طرح متاثر کرسکتی ہیں’۔