خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں گزشتہ 100 دنوں سے بند مرکزی شاہراہ کو کھولنے اور نجی بنکرز کو مسمار کرنے کے حکم نامے کو مؤخر کرکے مقامی مکنیوں سے مذاکرات کا عمل شروع کردیا گیا۔
ضلعی انتظامیہ نے گزشتہ جمعے کو ایک حکم نامہ جاری کیا تھا کہ پاڑاچنار روڈ پر قائم تمام نجی بنکرز کو ہٹایا جائے گا اور یہ سرکاری مشینری کے ذریعے ہوگا تاہم اس پر عمل درآمد نہیں ہوا اور انتظامیہ نے اس حکم کو مؤخر کرکے مذاکرات کا عمل شروع کیا ہے۔
بنکرز مسمار کرنے میں رکاٹیں کیا ہیں؟
بنکرز کو مسمار کرنے کے لیے قائم کمیٹی کے ایک رکن نے وی نیوز کو بتایا کہ نجی بنکرز کو مسمار کرنے کا عمل گزشتہ روز شروع کرنے کا فیصلہ ہوا تھا اور ضلعی انتظامیہ نے نوٹیفکیشن بھی جاری کیا تھا تاہم عوامی ردعمل کے باعث مؤخر کیا اور اب مقامی رہنماؤں کو اعتماد میں لینے کے لیے بات چیت کا عمل جاری ہے جس میں کچھ حد تک پیش رفت ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امدادی سامان بردار گاڑیوں کا پہلا قافلہ پاڑا چنار پہنچ گیا
انہوں نے بتایا کہ ٹل پاڑاچنار روڈ بدستور بند ہے اور بڑی تعداد میں امدادی سامان سے لدے ٹرک کھڑے ہیں کیوں کہ سڑک ابھی محفوظ نہیں ہے جس کے باعث پاڑاچنار بدستور بند ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بنکرز مسمار کرنے کے حوالے سے اپر کرم کے ایک فریق کو شدید تحفظات ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک بنکر کی آڑ میں سیاست ہو رہی ہے اور اس کو مسمار کرنے پر مسئلہ کھڑا کیا گیا ہے جس کی وجہ سے پورا آپریشن روک دیا گیا ہے اور لڑائی سے بچنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔
بگن میں دھرنا، مطالبات کیا ہیں؟
کرم کے علاقے بگن میں مکینوں کا دھرنا جاری ہے جو مطالبات کی منظوری تک جاری رہے گا۔ دھرنے میں شامل ایک رہنما نے بتایا کہ پاڑاچنار اور کرم میں جاری حالیہ فسادات میں بگن سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا دھرنے کے شرکا کا مطالبہ ہے کہ بگن پر لشکر کشی کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ بگن پر دن دہاڑے حملہ کیا گیا لوگوں کے گھروں اور دکانوں کو اگ لگائی گئی جس کی ویڈیوز بھی موجود ہیں لہٰذا ان کی مدد سے گرفتاری ہونی چاہیے۔
یاد رہے کہ چند ماہ پہلے پاڑاچنار جانے والی گاڑیوں کے قافلے پر حملے ہوا تھا جس میں 40 سے زیادہ لوگ زندگی کی بازی ہار گئے تھے جس کے جواب میں اگلے روز مسلح افراد نے بگن پر ہلہ بول دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بگن دھرنے کے شرکا کا مطالبہ ہے کہ حکومتی وعدے کے مطابق بگن میں اب تک نقصانات کا ازالہ نہیں ہوا اور لوگ امداد کے منتظر ہیں۔
مزید پڑھیے: ڈی سی کُرم پرحملے میں ملوث 30 دہشتگردوں کے خلاف ایف آئی آر، پارا چنار میں کرفیو لگانے کا فیصلہ
ان کا کہنا تھا کہ لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں اور اپیکس کمیٹی کے فیصلوں پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا اور ان کا مطالبہ ہے کہ کرم کو اسلحے سے پاک کرنے کے اپیکس کمیٹی کے فیصلے پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ ابھی تک اس پر کوئی عمل نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت بنکرز ہٹانے پر عمل نہیں کر رہی اور بے بس دکھائی دے رہی ہے۔
حکومت بے بس کیوں؟
کرم سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی نبی جان کے مطابق صوبائی حکومت کرم ایشو کو مقامی انتظامیہ کے حوالے کرچکی ہے جو انتظامیہ کے بس سے باہر ہے۔ انہوں نے کہا اپیکس کمیٹی کے فیصلوں پر سختی سے عمل درآمد ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کر رہی جبکہ نقصانات کا ازالہ بھی تاخیر کا شکار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کو اپیکس کمیٹی کے فیصلے کے مطابق کرم کو اسلحے سے پاک کرنا چاہیے۔
کرم فسادات، مختصر پس منظر
قبائلی ضلع کرم میں 2 قبائل کے مابین تنازع ایک عرصے سے جاری ہے اور باقاعدہ مورچہ زن ہوکر ایک دوسرے کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تنازع شمالاتی زمین پر شروع ہوا تھا جو اب فرقہ وارانہ فساد کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
مزید پڑھیں: شرپسندوں کی حوالگی پر عدم تعاون، خیبرپختونخوا حکومت نے کرم متاثرین کی مالی امداد روک دی
حالیہ تنازع چند ماہ پہلے پاڑاچنار جانے والی گاڑیوں کے قافلے پر حملے سے شروع ہوا تھا۔ جس میں 40 سے زیادہ لوگ زندگی کی بازی ہار گئے تھے جس کے جواب میں اگلے روز مسلح افراد مقامی گاؤں بگن پر حملہ آور ہوئے تھے اور گھروں اور بازاروں کو اگ لگادی تھی جس کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔
تب سے پاڑاچنار پشاور روڈ بدستور بند ہے جس کے باعث علاقے میں میڈیسن اور اشیا خورونوش کی شدید قلت ہے جبکہ پاڑاچنار اور ملحقہ علاقوں کے مکین محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔