وزارت دفاع کی جانب سے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ وزارت دفاع کی رپورٹ میں عجیب سی استدعا ہے۔
اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ کیا وزارت دفاع ایک ساتھ الیکشن کروانے کی استدعا کرسکتی ہے؟ سب کو کہہ دیا ہے کہ فیصلہ کرچکے ہیں، پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ وزارت دفاع کی ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کروانے کی درخواست ناقابل سماعت ہے۔
وزارت دفاع کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اخترپر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔
ایک موقع پر اٹارنی جنرل منصورعثمان نے عدالت کوبتایا کہ فریقین نے مذاکرات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔عدالت کچھ مہلت دے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے۔
جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ٹی وی پر سنا ہے وزراء کہتے ہیں اکتوبر میں بھی الیکشن مشکل ہے۔ اٹارنی جنرل کی بات میں وزن ہے۔ 14 مئی قریب آ چکا ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک موقف پرآجائیں توعدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔
عدالت نے تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی ہے۔
اس سے قبل سماعت کے آغاز پر وزرات دفاع کی درخواست پراٹارنی جنرل منصورعثمان سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کو سپلیمنٹری گرانٹ کے بعد منظوری لینے کا بتایا گیا تھا اس کے برعکس معاملہ ہی پارلیمنٹ کوبھجوا دیاگیا ہے۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیاالیکشن کیلئے ہی ایساہوتاہےیاعام حالات میں بھی ایساہوتاہے؟ جس پر اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے حکومت کوہدایت جاری کی تھی۔
جسٹس منیب اختر بولے؛ قائمہ کمیٹی میں حکومت کی اکثریت ہے۔ حکومت کوگرانٹ جاری کرنے سےکرنے سے کیسےروکاجاسکتا ہے۔ وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونی چاہیے۔ مالی معاملات میں توحکومت کی اکثریت لازمی ہے۔
اٹارنی جنرل کے مطابق قومی اسمبلی کی قرارداد کی روشنی میں معاملہ پہلےمنظوری کیلئےبھیجا گیا۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آئین حکومت کواختیاردیتا ہے تواسمبلی قرارداد کیسےپاس کرسکتی ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ گرانٹ کی بعد میں منظوری لینارسکی تھا۔
اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ کیاحکومت کی بجٹ کے وقت اکثریت نہیں ہونی تھی۔ آپ جو بات آپ کررہے ہیں وہ مشکوک لگ رہی ہے۔
جسٹس منیب اخترنے دریافت کیا کہ کیا کبھی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری لینے میں حکومت کو شکست ہوئی؟ جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ سال 2013 میں کٹوتی کی تحریکیں منظور ہوچکی ہیں۔ موجودہ کیس میں گرانٹ جاری کرنے سے پہلے منظوری لینے کیلئے وقت تھا۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ وزارت خزانہ کی ٹیم نے بارہا بتایا کہ سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری بعد میں لی جاتی ہے۔ وزارت خزانہ نے آئین کے آرٹیکل 84 کا حوالہ دیا تھا۔ جس پر اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ قومی اسمبلی اس معاملہ پر قرارداد منظور کرچکی تھی۔
اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا قرار داد کی منظوری کے وقت گرانٹ منظوری کے لیے پیش کی گئی تھی۔ وفاقی حکومت کی اسمبلی میں اکثریت لازمی ہے۔ حکومت کی گرانٹ اسمبلی سے کیسے مسترد ہو سکتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ کیا آپ کو سپلیمنٹری بجٹ مسترد ہونے کے نتائج کا علم ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ گرانٹ منظوری کا اصل اختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔ اسمبلی پہلے قرارداد کے ذریعے اپنی رائے دے چکی تھی۔
جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ حکومت سنجیدہ ہوتی تو کیا سپلیمنٹری گرانٹ منظور نہیں کروا سکتی تھی۔ جس پر اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ گرانٹ جاری ہونے کے بعد منظوری نہ ملے تو اخراجات غیر آئینی ہوتے ہیں۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ انتظامی امور قائمہ کمیٹی کو بھجوانے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ انتخابی اخراجات ضروری نوعیت کے ہیں غیر اہم نہیں۔
چیف جسٹس کے مطابق حکومت کا گرانٹ مسترد ہونے کا خدشہ اسمبلی کے وجود کے خلاف ہے۔ توقع ہے حکومت اپنے فیصلے رہ نظر ثانی کرے گی۔ حکومت فیصلہ کرے یا اسمبلی کو واپس بھجوائے جواب دے۔ اس معاملہ کے نتائج غیر معمولی ہو سکتے ہیں۔ فی الحال غیر معمولی نتائج پر نہیں جانا چاہتے۔ حکومت کو عدالتی احکامات پہنچا دیں۔