اکثر یہ دعوے سننے میں آتے ہیں کہ دنیا کے فلاں حصے میں اڑن طشتری دیکھی گئی ہے جس کے بارے یہ قیاس بھی کیا جاتا ہے کہ وہ کسی اور سیارے سے زمین کے بارے میں تحقیق کرنے آئی تھی اور یہ کہ وہ ایسی مخلوق کی جدید قسم کی سواری ہے جو دیکھنے میں انسانوں سے قدرے مختلف لیکن ان سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔
گو ایسے دعووں کا کبھی کوئی پختہ ثبوت سامنے نہیں آیا اور نہ ہی ایسی کوئی مخلوق اب تک انسانوں کے قابو آئی اور انہیں اکثر ماہرین نے جھوٹ یا انسانی والمہ ہی قرار دیا ہے لیکن ایک امریکی پروفیسر مائیکل پی ماسٹرز نے خلائی مخلوق کے بارے میں ایک انوکھا نظریہ پیش کیا ہے۔
علم بشریات کے ماہر پروفیسر مائیکل پی ماسٹرز ہیومن ایولوشنری اناٹومی، آرکیالوجی اور بایو میڈیسن پر اسپیلائیزیشن کر رہے ہیں۔ اپنی ایک کتاب ’آئیڈینٹفائیڈ فلائینگ آبجیکٹس: اے ملٹی ڈسیپلینری سائنٹیفک اپروچ ٹو دی یو ایف او فینومینا‘ (شناخت شدہ اڑنے والی اشیا: یو ایف او کے بارے میں ایک کثیرالثباتی سائنسی نقطہ نظر) میں انہوں نے ’اڑن طشتریوں پر آنے والی خلائی مخلوق‘ کے حوالے سے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔
پروفیسر مائیکل کا خیال ہے کہ جو اجنبی مخلوق اڑن طشتریوں پر زمین پر آتی ہے وہ دراصل انسان ہی ہیں اور ہم میں سے ہی ہیں؛ امن کی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی اور سیارے یا ستارے سے نہیں آتے بلکہ ان کا تعلق ہمارے ہی سیارے یعنی زمین سے ہے۔
پروفیسر اس امکان کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ ’ایلینز‘ درحقیقت وہ لوگ ہیں جو مستقبل کے انسان ہیں اور سائنسی لحاظ سے اتنی ترقی کرچکے ہیں کہ ’ٹائم مشین‘ کے ذریعے سفر کرلیتے اور اس کے ذریعے گزرے ہوئے دور میں آجاتے ہیں تاکہ اپنے خود کے ماضی اور زمانہ قدیم میں بسنے والے انسانوں کے رہن سہن اور ارتقا کا مطالعہ کریں۔
کتاب کے مصنف کا یہ بھی لکھنا ہے کہ ہر جگہ خلائی مخلوق کا ایک سا حلیہ بیان کیا جاتا ہے یعنی دو پیروں پر چلتی گنجے سر، بڑے دماغ، بڑی آنکھوں، چھوٹی ناک اور چھوٹے منہ والی ایسی مخلوق جو دیکھنے میں انسانوں سے مشابہ ہے اور جو ہم سے ہماری ہی زبان میں بات کرتی ہے۔ اس کے پاس ہم سے زیادہ ترقی یافتہ آلات اور ٹیکنالوجی ہے لیکن درحقیقت وہ ہماری ہی طرح بنی ہے لیکن ہے آج کے انسان سے انتہائی ایڈوانس۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم مستقبل کے اس امکان پرغور کرسکتے ہیں کہ اڑن طشتری پر آنے والے یہ لوگ زمین پر ہی پائے جانے والے انسانوں کا تسلسل یعنی اولادیں ہیں جنہوں نے زمان و مکاں پر دسترس حاصل کرلی ہے۔
مائیکل کا کہنا ہے کہ ’ہم انسانوں کی ارتقائی تاریخ سے واقف ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ہماری ٹیکنالوجی مستقبل میں اور زیادہ ایڈوانس ہوجائے گی اور ان تمام باتوں کے پیش نظر میرے لحاظ سے یہی غیر متزلزل اور بہتر وضاحت ہو سکتی ہے جو میں نے کی ہے‘۔
انہوں نے لکھا کہ اڑن طشتریوں پر آنے والے مستقبل کے یہ انسان ممکنہ طور پر ماہر بشریات، تاریخ دان اور ماہر لسانیات ہوسکتے ہیں جو یہاں ریسرچ کرنے آتے ہیں ہم فی الوقت اپنے ماضی میں اس لیے نہیں جاسکتے کہ ہمیں ایسی ٹیکنالوجی پر ابھی دسترس نہیں۔
پروفیسر مائیکل پی ماسٹرز کے نقطہ نظر پر ماہرین کی متضاد رائے
میوچول یو ایف او نیٹ ورک کے سربراہ جان حرزان کا کہنا ہے ان کی تنظیم دیگر امکانات کا ساتھ مائیکل کی اس بات کی بھی اسٹڈی کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ یو ایف او والی اجنبی مخلوق ہم میں سے ہی ہے تاکہ اڑن طشتریوں کے رجحان کی تشریح کی جاسکے۔ حرزان جن کی غیر سرکاری تنظیم دنیا میں یو ایف اوز کے دیکھے جانے کے دعٰووں کی تحقیق کرتی ہے نے کہا کہ مائیکل نے اپنے ٹائم ٹریول والے مفروضے کو پیش اچھی طرح کیا ہے۔
تاہم مائیکل کی بات سے ہر کوئی متفق نہیں۔ یو ایف او کی باتوں پر تشکیک کرنے والے ایک ماہر رابرٹ شیفر کا کہنا ہے کہ مائیکل کی کتاب میں ایسا کچھ نہیں کہ اسے سنجیدہ لیا جاسکے۔ اس کی بنیاد ایک ایسے عقیدے پر ہے کہ گویا ٹائم مشین یا ٹائم ٹریول ایک امکان نہیں بلکہ ایک حقیقت ہو۔
رابرٹ شیفر نے کہا کہ یہ ایک انتہائی عجیب اور مشکوک قسم کا دعٰوی ہے کہ کوئی کسی سواری کو تیزی سے گھمائے اور اس سے زمان و مکاں سمٹ جائیں اور اس سے چیزوں کو بھی ماضی میں بھیجا جاسکے۔
برطانوی ماہر فلکیات اور سائنس رائٹر ڈیوڈ ڈارلنگ کا کہنا ہے کہ اگر فرض کیا جائے کہ ایلینز اور یو ایف او واقعی زمین پر آتے ہیں تو پھر یہ زیادہ مناسب مفروضہ ہوگا کہ یہ ہمارے ہی مستقبل کے زمانے سے آتے ہیں نہ کہ کسی سیارے یا ستارے سے۔ ان کا مزید کہنا لے کہ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ ساری باتیں اگر مگر کی بنیاد پر ہی ہوتی ہیں یعنی سب مفروضات ہی ہیں۔
ڈیوڈ ڈارلنگ نے کہا کہ ایلینز کے وجود اور ان کے حلیے کے حوالے سے مشہور ہوئے افسانوں کے معتبر ہونے کے شواہد بہت کم ہی ہیں لحاظہ میری نظر میں مائیکل کا یہ مقالہ غیر ضروری ہے۔