تین معصوم لوگ

بدھ 26 اپریل 2023
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وقت بہت ظالم ہے، کیسے کیسے فرعونوں کو مٹی کردیتا ہے، کیسے کیسے طاقتور کرداروں کو خاک کردیتا ہے، ماضی کے کیسے کیسے شہ سواروں کو راکھ کردیتا ہے۔

ایک واقعہ یہ ہوتا ہے کہ فرد مٹی تلے دب جاتا ہے اور اس کا ماضی اس کے ساتھ ہی دفن ہوجاتا ہے۔ دوسرا حادثہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ زندہ رہتے ہیں اور ان کا ماضی انہیں مار دیتا ہے۔ ان کے افعال، ان کا تکبر انہیں زمانہ حال ہی میں دفن کردیتا ہے۔ یہ المیہ جن پر گزرتا ہے وہ ایسے زندہ درگور ہوجاتے ہیں کہ ان کا ماضی ہر لمحہ ان پر کوڑے برساتا رہتا ہے۔

ایسے میں بعض ماضی کی غلطیوں پر پشیمان ہوتے ہیں، معافی کے طلبگار ہوتے ہیں لیکن بعض معصومیت کا ایسا روپ دھار لیتے ہیں، جیسے انہوں نے کچھ کیا ہی نہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ لوگ ان کی فرعونیت کو ایک غلط فہمی سمجھ کر بھول جائیں گے، ایک شک، شبہ سمجھ کر فراموش کردیں گے اور پھر ایک سرٹیفکیٹ جاری کریں گے کہ وہ ہرگز غلط کار نہ تھے۔ تاریخ انہیں ایسی نرم دل، نرم خو، نیک، پاک باز شخصیات قرار دے گی جن پر چند نافرمانوں نے تہمت لگائی تھی اور بس!

جنرل باجوہ کے غیر مصدقہ انٹرویوز کا سلسلہ طویل ہے۔ بات کہہ کے مکر جانے کا فن کوئی ان سے سیکھے۔ انٹرویو دیتے بھی ہیں اور اس کی تصدیق بھی نہیں کرتے۔ انہوں نے وہ انٹرویوز دیے یا نہیں، یہ ایک الگ سوال ہے، چونکہ وہ تردید بھی نہیں کرتے۔

انٹرویو چاہے کسی جغادری کالم نگار سے ملاقات میں ہوا ہو یا سرِ راہ کسی صحافی سے گفتگو پر مبنی ہو، اس کا نتیجہ کچھ یوں نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جنرل صاحب کا دل وطن کی محبت سے معمور تھا، انہیں معیشت کی بھی فکر تھی اور معاشرت کی بھی، اخلاقی گراوٹ پر بھی، وہ سخت پریشان رہتے تھے اور سماجی استحصال پر بھی ان کا دل خون کے آنسو روتا تھا مگر حالات ایسے تھے کہ کچھ بھی ان کے بس میں نہ تھا۔

وہ اپنے انٹرویوز میں باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ عمران خان ہی نے سارے جرائم کیے، وہ خود پاک اور پوتر ہی رہے۔ نہ انہیں ملکی خزانے سے کچھ لینا دینا تھا، نہ انتخابات کو لوٹنا ان کا مقصد تھا، نہ وہ اپوزیشن پر ظلم توڑنے کے حق میں تھے، نہ اسمبلیوں کے اجلاس بلانے کے لیے انہوں نے حساس بندے استعمال کیے، نہ انہیں صحافیوں کے اغوا اور ان پر تشدد کی کچھ خبر تھی، نہ وہ ہائبرڈ نظام کی اے بی سی سے واقف تھے۔ وہ اچھی بہو، بیٹیوں کی طرح سر پر آنچل لیے زمانے کا تماشہ ہی دیکھتے رہے۔ ہاں! انہوں نے اپنی بساط کے مطابق اس ابتلا کو روکنے کی کوشش کی مگر کیا کیجیے مجبور اور بے بس تھے۔ ان کے ہاتھ بندھے تھے، زبان پر قفل تھا اور ضمیر پر بوجھ۔ وہ ملک کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر خان کی ہٹ دھرمی نے انہیں کچھ نہ کرنے دیا۔

اب عمران خان کی سن لیں، روز قوم سے خطاب کرتے ہیں، ہر روز ایک نیا شگوفہ چھوڑتے ہیں۔ کبھی اپنے قتل کا الزام امریکا پر لگاتے ہیں، پھر یہ الزام جنرل باجوہ کے سر دھرتے ہیں۔ اگلے روز خطاب فرماتے ہیں، اور قتل کا الزام لے کر آصف زرداری کے سر ہوجاتے ہیں، اس سے اگلے روز سارے کا سارا الزام محسن نقوی کے سر منڈھ دیتے ہیں۔

ان سے ان کے دورِ اقتدار کے بارے میں سوال کیا جائے تو موٹے موٹے دانوں والی تسبیح مزید زور سے گھمانا شروع کردیتے ہیں، اک عالم بے خودی میں ڈوب جاتے ہیں اور پھر سر اٹھاتے ہیں، سارا الزام جنرل باجوہ پر لگا کر شتاب ہوجاتے ہیں۔ ایسی شکل بناتے ہیں، جیسے جو کچھ ہو رہا تھا، اس کا انہیں سرے ہی سے کوئی علم نہ تھا۔ نہ انہیں خبر تھی کہ ان کے عہدِ اقتدار میں آزادی اظہار کے پردے میں کیا کچھ ہوتا رہا، نہ انہیں انتخابات میں بے مثال دھاندلی کے بارے میں کچھ پتا تھا، نہ معیشت کی بدحالی کی وجہ انہیں قرار دیا جاسکتا ہے، نہ گالیوں والی سیاست سے ان کا کچھ لینا دینا ہے، نہ انہوں نے کوئی گھڑی بیچی، نہ بزدار ان کا انتخاب تھا نہ اسمبلیاں انہوں نے خود توڑیں، نہ نیب چیئرمین کی ویڈیو انہوں نے ریلیز کی۔ وہ بس ایک معصوم فرشتہ تھے اور یہ سارا تماشا دیکھنے پر مجبور تھے۔ انہیں کچھ خبر نہ تھی کہ ہو کیا رہا ہے۔ وہ بلاوجہ بدنام ہو رہے ہیں۔ ان کا کوئی دوش ہے نہ کوئی قصور۔ اصل مجرم جنرل باجوہ تھے۔

معصومین کی فہرست میں تیسرا بڑا نام ثاقب نثار کا ہے۔ ان کے کچھ انٹرویوز سنے جو ان کی آڈیو لیکس سے بالکل مختلف ہیں۔ اب تو وہ ایسے توبہ تائب نظر آتے ہیں، جیسے ملکوتی صفات سے متصف پیارے سے انسان ہوں۔ اب ان کی باتوں میں پہلے جیسا طنطنہ ہے نہ تکبر چھلکتا ہے، نہ غیر آئینی فیصلوں کی رمق کہیں نظر آتی ہے نہ توہینِ عدالت کا کہیں کوئی غلغہ ہے۔

اب وہ اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں، لوگوں کو نیکی کی راہ پر چلنے کا درس دیتے ہیں۔ محبت، اخلاص اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی آڈیو لیکس ان کے داغدار ماضی کی دلیل ہورہی ہیں، مگر وہ اب ایسی شرافت کا پرتو بن چکے ہیں کہ شاید ’فرشتہ صفت‘ کی اصطلاح انہی حضرت کے لیے لغت میں شامل کی گئی تھی۔ اب ان کے بزعم خود ’بابا رحمتے‘ کے لہجے میں ایسی شیرینی ہوتی ہے کہ سننے والا ان کے لفظوں سے ٹپکنے والے شیرے میں لتھڑ جاتا ہے۔ اب ان کی فرعونیت دم توڑ رہی ہے، ایسے لگتا ہے کہ ان کا اپنے تمام قومی جرائم سے کوئی علاقہ نہیں۔ انہوں نے کوئی ظلم ڈھایا نہ آئین توڑا، نہ ان کی رعونت نے کسی کو تختہ مشق بنایا نہ تکبر میں کسی کو ایذا دی۔ ان کا خیال ہے کہ عصرِ حاضر کے معصومین کی فہرست مرتب ہو تو ان کا ’اسم گرامی‘ سب سے پہلے لکھا جانا چاہیے۔

دورِ عمران میں ظلم سہنے والے، ستم برداشت کرنے والے لوگ ان تین بزعم خود معصوموں کے سیاہ کردار سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ یہی وہ تین کردار تھے جنہوں نے اس سماج کو اذیت ناک بنایا، جنہوں نے اس ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ چاہے اب وہ معصومیت کے کتنے ہی ڈھونگ رچائیں، یہ تاریخ پاکستان کے سیاہ ترین کرداروں میں شامل ہیں۔

یاد رکھنے کی بات صرف اتنی سی ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں نے دورِ عمران میں جو ہزیمت اٹھائی اس کا ازالہ معافی یا معصومیت کے بہروپ سے نہیں ہوسکتا اگر ملک کو درست سمت پر رکھنا مقصود ہے تو کچھ حالیہ معصومین کو سزا دینا ہوگی، کچھ کرداروں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ تعمیر کے سفر کا آغاز تادیب سے کرنا ہوگا۔ ان جرائم کی سزا کے لیے کسی تحقیق یا تفتیش کی ضرورت نہیں۔ ماضی کے یہ تین فرعون ہر روز اپنے کیے اور کہے کی زد میں آرہے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم خشک، پہاڑی علاقوں میں شدید سردی کا امکان

سرینگر: پولیس اسٹیشن میں خوفناک دھماکا، 9 اہلکار ہلاک، 27 زخمی

2 سال بعد سینچری اسکور کرکے بابر اعظم نے مخالفین کو کیا پیغام دیا؟

وزیراعلیٰ محمد سہیل آفریدی کا حیات میڈیکل کمپلیکس پشاور کا ہنگامی دورہ

افغانستان دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں، کالعدم ٹی ٹی پی کن علاقوں میں موجود ہے؟

ویڈیو

گیدرنگ: جہاں آرٹ، خوشبو اور ذائقہ ایک ساتھ سانس لیتے ہیں

نادرا کی جانب سے نکاح کے بعد ریکارڈ اپڈیٹ لازمی قرار دینے پر شہریوں کا ردعمل کیا ہے؟

’سیف اینڈ سیکیور اسلام آباد‘ منصوبہ، اب ہر گھر اور گاڑی کی نگرانی ہوگی

کالم / تجزیہ

افغان طالبان، ان کے تضادات اور پیچیدگیاں

شکریہ سری لنکا!

پاکستان کے پہلے صدر جو ڈکٹیٹر بننے کی خواہش لیے جلاوطن ہوئے