ملک میں انتخابات ایک ساتھ کرانے کا مقدمہ۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کوئی ہدایت جاری کر رہے ہیں نہ ہی کوئی ٹائم لائن دے رہے ہیں۔ مناسب حکم تحریری فیصلے میں جاری کریں گے۔ سماعت ملتوی کر دی گئی۔ فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا۔
چیئرمین سینیٹ کس حیثیت میں ’مذاکرات‘ کر رہے ہیں: چیف جسٹس
سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا ’عدالت نے گزشتہ سماعت پر بات چیت کا وقت دیا تھا۔ عدالتی احکامات کے بعد رابطے ہوئے، منگل کو ایاز صادق نے لاہور میں اسد قیصر سے ملاقات کی۔ لیکن اسد قیصر نے بتایا کہ ان کے پاس مذاکرات کا اختیار نہیں ہے‘۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’کل پی ڈی ایم اور اتحادیوں کے درمیان ملاقات ہوئی جبکہ چیئرمین سینیٹ نے 5 ارکان پر مشتمل کمیٹی بنانے کا نوٹفیکیشن جاری کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا لگتا ہے اب پی ٹی آئی نے کوئی کمیٹی بنائی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو کب پتا لگا کہ اسد قیصر کے پاس مذاکرات کا اختیار نہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا انہیں منگل والے دن معلوم ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیئرمین سینیٹ نے مذاکرات کا عمل شروع کر دیا ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ چیئرمین سینیٹ کس حیثیت میں یہ کام کر رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آپ کو معلوم ہے کہ وہ ایک ادراے کے سربراہ ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل ہمیں آپ کا اعتماد چاہیئے۔
اس موقع پر فاروق نائیک نے کہا کہ اس سارے عمل میں چیئرمین سینیٹ کا کردار مذاکرات کرانے کا ہے وہ سہولت کار ہیں۔ انہوں نے کہا پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں لیکن حکومت میں شامل ہے۔ 5، 5 ممبران کو کمیٹی میں شامل کرنے کا چیئرمین سینیٹ نے لکھا ہے۔
حکومتی اتحاد مذاکرات کرنا چاہتا ہے تو ہم تیار ہیں مجھے پارٹی نے مینڈیٹ دیا ہے: شاہ محمود قریشی
پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آگئے۔ انہوں نے کہا کہ میں انگریزی کے بجائے اردو میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کو یاد ہے کہ گزشتہ سماعت پر پی ڈی ایم والوں نے کہا تھا مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ پی ڈی ایم کی ایک جماعت جے یو آئی آج بھی سماعت میں نہیں آئی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا پی ڈی ایم میں مذاکرات کے معاملے پر اختلافات ہیں۔ ہم آپ کے حکم کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے سلمان اکرم راجا کے چیمبر میں ملے۔ آپ کا حکم اب بھی موجود ہے۔ آپ نے قومی مفاد کے تحت موقع فراہم کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اتفاق رائے کیسے ہوسکتا ہے کہ اہم معاملے پر ایک صفحے پر مشتمل جواب تیار کیا گیا ہے۔ میں وہ میڈیا کو نہیں دوں گا لیکن عدالت چاہے تو آپ کو دے دوں گا۔ پی ڈی ایم نے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ اسد قیصر سے غیر رسمی رابطہ کیا گیا۔ پی ڈی ایم والوں نے اب اس وقت جب عدالت کے سامنے کھڑا ہوں کوئی رابطہ نہیں کیا۔ اگر حکومتی اتحاد مذاکرات کرنا چاہتا ہے تو ہم تیار ہیں مجھے پارٹی نے مینڈیٹ دیا ہے۔
فاروق نائیک آپ مذاکرات میں شامل ہوں، آپ سب کو ٹھنڈہ رکھیں گے: چیف جسٹس
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے خوشی ہوئی کہ مخدوم صاحب (شاہ محمود قریشی)نے آج ہی مذاکرات کی بات کی ہے۔ اس موقع پر فاروق نائیک نے کہا ’ میں یہاں کوئی سیاسی تقریر نہیں کرنا چاہتا، پارلیمان اور آئین کو انڈر مائین نہیں کرنا چاہتا۔ میں بھی بہت کچھ بول سکتا ہوں۔ مذاکرات کے لیے ماحول بنانا پڑتا ہے۔ ایسی باتیں نہ کی جائیں جس سے ماحول خراب ہو۔
چیف جسٹس نے کہا اس کام میں صبر اور تحمل چاہیئے، ان کو بھی یہی تلقین کریں گے کہ صبر و تحمل کیا جائے۔ گزشتہ سماعت پر یہ اتفاق رائے ہو اتھا کہ ایک دن الیکشن ہوں۔ آپ نے کہا تھا کہ 26 کو آپ کی ملاقات ہو گی۔
اس پر فاروق نائیک نے کہا وہ ملاقات ہوئی تھی، مولانا کو سینیٹ کی حد تک راضی کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کی فلاح و بہبود اور ان کے ووٹ کے حق کے لیے کسی حل پر پہنچتے ہیں تو بہتر ہے۔ اگر کسی حل پر نہیں پہنچتے تو جیسا چل رہا ہے وہی چلے گا۔ کیا یہ ضروری ہے کہ 5 ممبران ہوں۔
اٹارنی جنرل نے کہا یہ ضروری نہیں ہے۔ کچھ دیر میں نام دینے کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ سینیٹ صرف مذاکرات کے لیے سہولت دے گا۔ یہ (پی ٹی آئی) چیئرمین سینیٹ کو اپنے نام دیں۔ چیئرمین سینیٹ مذاکرات میں نہیں ہوں گے۔ یہ معاملہ سیاسی شخصیات نے حل کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا میری تجویز ہے کہ فاروق نائیک آپ مذاکرات میں ہوں، آپ سب کو ٹھنڈہ رکھیں گے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کیوں نہ یہ مذاکرات آج ہوں کل پر کیوں جا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں اٹارنی جنرل صاحب کتنی سنجیدگی ہے آپ کی طرف سے؟ چیئرمین سینیٹ ہمارے لیے معزز ہیں، مذاکرات کو کنڈکٹ کرنے کے لیے کسی کو نامزد کریں۔ ہم نے حکومت کو دیکھنا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے کیا کر رہی ہے۔
خدا کے واسطے آئین کے لیے اکٹھے بیٹھ جائیں: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا سب کو علم ہے کہ ہمارا فیصلہ یہاں موجود ہے۔ فاروق نائیک نے جو باتیں کیں وہ ساری سیاسی صورتحال ہے۔ فاروق نائیک نے کہا پہلے بیٹھ جائیں، باتیں ہوں گی، گلے شکوے ہوں گے لیکن پہلے بیٹھ جائیں۔
چیف جسٹس نے کہا اب ہم آپ پر چھوڑتے ہیں، سب کو علم ہے کہ کہاں پر کھڑے ہیں۔ ہمارے سامنے ایشو ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات کی کسی ایک تاریخ پر متفق ہوں۔ سب کو علم ہے کہ آئین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کچھ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ساری عمر آئین کی حفاظت کی ہے۔ خدا کے واسطے آئین کے لیے اکٹھے بیٹھ جائیں۔ ہم اس کے بعد ایک آرڈر جاری کریں گے۔
اس موقع پر جماعت اسلامی کے رہنما میاں اسلم نے کہا کہ اسیمبلیوں کی انتخابات ایک دن ہوں۔ چیف جسٹس نے میاں اسلم سے استفسار کیا کہ آپ کے امیر کہاں ہیں؟ میاں اسلم نے جواب دیا کہ مجھے انہوں نے ہی آپ کے پاس بھیجا ہے۔
چیف جسٹس نے تحریک لبیک کے وکیل سے پوچھا کہ آپ الیکشن چاہتے ہیں۔ اس پر تحریک لبیک کے وکیل نے کہا ہم ملک میں الیکشن چاہتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا بس پھر بات ختم۔
چیف جسٹس نے فاروق نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا نام دینے میں کیا سائنس ہے، کیا حکومت نے اپنے 5 نام دیے ہیں؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا پی ٹی آئی چاہے تو 3 نام دے دے۔ حکومت کے نام تین چار گھنٹے میں فائنل ہو جائیں گے۔اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ نے صرف سینیٹرز کے نام مانگے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے نیک نیتی دکھانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں، لگتا ہے حکومت صرف پاس پاس کھیل رہی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے دوبارہ کہا حکومت سنجیدہ مذاکرات چاہتی ہے تو ہم تیار ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی ٹائم لائن نہیں دیں گے اور آج کی سماعت کا مناسب حکم جاری کریں گے۔ آج کی سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کیا جائے گا ۔کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی ۔
گزشتہ سماعت پر کیا ہوا تھا؟
رواں ماہ 20 اپریل کو ہونے والی گزشتہ سماعت میں عدالت نے سیاسی جماعتوں سے کہا تھا کہ وہ 26 اپریل تک مذاکرات کریں اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے پیدا ہونے کے بعد 27 اپریل تک جواب جمع کروائیں۔ سیاسی جماعتوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اس معاملے پر جلد فیصلہ کریں کیونکہ انتخابات کے لیے 14 مئی کی تاریخ دی جا چکی ہے اور اس کی پابندی کا حکم تمام حکام پر لازم ہے۔
گزشتہ سماعت کے بعد جاری تحریری حکمنامے میں کہا گیا تھا کہ عدالت کو بتایا گیا کہ 26 اپریل کو سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک اجلاس ہوگا۔ 27 اپریل تک سیاسی رابطوں اور ڈائیلاگ کی پیش رفت رپورٹ جمع کروائی جائے گی۔