پنجابی ادب کی فکری اور تخلیقی روایت کو نئی جہت دینے والے ممتاز شاعر تجمل کلیم خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کا انتقال چونیاں، ضلع قصور میں ہوا۔ خاندانی ذرائع کے مطابق وہ کچھ عرصے سے علیل تھے۔
’استاد کلیم‘ کے نام سے معروف تجمل کلیم پنجابی شاعری میں ایک الگ شناخت رکھتے تھے۔ ان کی شاعری میں روایت، مزاحمت، درد اور عوامی جذبات کی بھرپور ترجمانی نظر آتی ہے، جبکہ زبان و بیان میں جدت اور فکر کی وسعت ان کی پہچان رہی۔
مزید پڑھیں: اردو، انگریزی اور پنجابی کے نامور کمپیئر دلدار پرویز بھٹی کی 76ویں سالگرہ
تجمل کلیم کی اہم کتب میں “برفاں ہیٹھ تندور” (1996)، “ویہڑے دا رکھ” (2010)، “ہان دی سولی” (2012) اور “چیکدا منظر” (2017) شامل ہیں۔ ان کی شاعری نہ صرف ادبی حلقوں میں سراہی گئی بلکہ نوجوان نسل کو بھی شعوری بصیرت اور فکری رہنمائی فراہم کرتی رہی۔
پنجابی زبان و ادب کے فروغ میں ان کی خدمات کو ناقابلِ فراموش قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کے انتقال پر ادبی حلقوں، علمی اداروں اور پنجابی زبان کے چاہنے والوں میں گہرے رنج و غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔
مزید پڑھیں: کینیڈا: معروف پنجابی گلوکار اے پی ڈھلوں کے گھر فائرنگ کیوں ہوئی؟
ادبی تنظیموں اور تجمل کلیم کے احباب نے ان کی وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کا تخلیقی ورثہ آئندہ نسلوں کے لیے مشعلِ راہ رہے گا۔ وہ چلے گئے، مگر ان کا کلام ہمیشہ زندہ رہے گا اور دلوں کو جھنجھوڑتا رہے گا۔
وعدے پُورے کر نئیں جاندا
سوچ رہیاں آں کیوں مر نئیں جاندا
جس دن نہ مزدوری لبھے
بُوہے ولوں گھر نئیں جاندا
کانواں تک نوں ذات پیاری
بندہ سُن کے مر نئیں جاندا
میرا سینہ دم کرواؤ
میرے اندروں ڈر نئیں جاندا
سرِ ساہنواں دی پَنڈ نئیں ہوندی
مردہ ایویں تر نئیں جاندا
اِنج کلیمؔ نے نِیویں سُٹی
جسراں بندا ہر نئیں جاندا
تجمل کلیم