افغان کہاوت ہے کہ جس کا قندھار اسی کا کابل۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس قندھار میں اقتدار ہوگا اسی کا سکہ کابل میں چلے گا۔ ہم جب کابل سے معاملہ کرنے لگتے ہیں تو ہم قندھار فیکٹر کو زیادہ تر نظرانداز کرتے ہیں۔ اسلام آباد کو خیبر پختون خوا نزدیک پڑتا ہے۔ قندھار کا مزاج بلوچستان کی پشتون بیلٹ سے ملتا ہے۔
خیبرپختون خوا میں طاقت کا مرکز پشاور ویلی میں گھومتا رہتا ہے۔ پشاور ویلی کے 5 اضلاع ہیں۔ پشاور، مردان، چارسدہ، نوشہرہ اور صوابی۔ اس پشاور ویلی میں سیاست کی امامت باچا خان کی فکر کے پاس رہی ہے۔ پشتو ادب پر بھی اس کے اثرات گہرے ہیں۔ اس اکثریتی سوچ کی مخالفت کرنے والے بھی کبھی کمزور نہیں رہے۔ اقتدار ان کے پاس زیادہ عرصہ رہا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اسی پشاور ویلی کو لاڑکانہ بنائے رکھا۔
آگے بڑھنے سے پہلے ایک اور بات بتانا بھی ضروری ہے۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ، پنڈی یا فوج کا ذکر بھی سیاست کے ساتھ لازمی ہوتا ہے۔ اگر آپ اٹک پل پر کھڑے ہو کر ایک بڑا گول دائرہ لگائیں تو اٹک، پنڈی، جہلم اور چکوال یعنی پرانا پنڈی ڈویژن، پشاور ویلی اور اس کے ساتھ کوہاٹ کا ضلع اس دائرے میں آ جائیں گے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے فوج کی رولنگ ایلیٹ اور فٹ سولجر آتا رہا ہے۔ اگر آپ کو فوج کی سیاست میں مداخت پر سوال اٹھانے ہیں تو پھر جہاں سے فوج کی رولنگ ایلیٹ آتی ہے، اس علاقے کو بھی جان لیں۔
سابق فاٹا 7 ایجنسیوں اور 6 ایف آر پر مشتمل علاقہ تھا۔ فاٹا کی 6 ایجنسیاں افغانستان باڈر (ڈیورنڈ لائن ) کے ساتھ لگتی ہیں۔ باجوڑ ، مہمند، خیبر، کرم، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان پہلے ایجنسیاں کہلاتے تھے اب اضلاع کا درجہ پا گئے ہیں۔
آپ صرف اجتماعی ذمہ داری کے قانون ایف سی آر وغیرہ سے ہی واقف ہوں گے۔ ٖفاٹا کے زیر انتظام تمام ایجنسیاں وفاق کے ماتحت تھیں اور وفاق کی جانب ہی دیکھتی تھیں۔ امریکا اور اتحادیوں کی افغانستان آمد تک سارا فاٹا ہی اس طرف چلتا تھا جدھر وفاقی حکومت یا ریاست جا رہی ہوتی تھی۔ جو ریاست کی کشمیر پالیسی ہوتی تھی وہی فاٹا والوں کا ایمان قرار پاتی تھی۔ جو روس کے خلاف افغان پالیسی تھی اس کو بھی فاٹا کے اضلاع سے ہی بھرپور حمایت ملی۔ ہمارا اب اس میں کمال دیکھیں کہ ہم نے ان فاٹا والوں کے ساتھ کیا کیا۔
فاٹا والوں کو ہم نے افغانوں کے دستر خوان پر بٹھائے رکھا۔ یہ سخت بات کہے بغیر آپ کو بات سمجھ نہیں آئے گی۔ ٹرانزٹ ٹریڈ پر فاٹا والوں کی آمدن کا انحصار تھا۔ یہ وہ سہولت تھی جو اٖفغانستان کو فراہم کی گئی تھی۔ اس کی وجہ سے ہمارے فاٹا والوں کے کچن کا انحصار افغان حکومت کی امپورٹ پالیسی ریوینیو اور ٹیکس پر تھا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ افغان بزنس مین کے لیے پاکستان بزنس آپشن بنتا۔ الٹا ہمارے فاٹا کا قبائلی اپنی کمائی روزگار کے لیے افغان حکومت کی طرف دیکھتا رہا۔
باچا خان اپنی وصیت کے مطابق جلال آباد میں دفن ہوئے۔ ہماری لاہوری پنجابی سوچ نے اس کو غداری سے جوڑ کر دیکھا۔ ایک بلاوجہ کے پریشر میں آئے، افغانستان سے زیادہ پختون پاکستان میں ہیں۔ جو زیادہ تعلیم یافتہ، زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ ہمیں شک رہتا ہے کہ افغانستان کے ہاتھوں یہ استعمال نہ ہو جائیں۔ ایسا سوچتے ہم کو شرم بھی نہیں آتی۔ ہم ابھی نہیں تو کبھی سمجھ ہی جائیں گے کہ باچا خان نے جلال آباد میں دفن ہو کر پختونوں کو بھی ایک کر دیا تھا اور پاکستان افغانستان کو بھی بھائی بندی میں باندھ دیا تھا۔
سکندر اعظم تو گجرات میں ہاتھ کھڑے کر گیا تھا۔ افغان یا پختون نان سٹاپ دہلی پہنچتے رہے۔ وجہ اس کے علاوہ کیا ہے کہ دہلی سے پہلے موجودہ پاکستان کے علاقے میں بسنے والی اقوام کے ساتھ اتحاد سے ہی یہ باہرو باہر دہلی پہنچے۔ آج کی تاریخ میں اگر افغانستان آ کر روس امریکا ٹک نہیں سکے تو اس کی وجہ بھی پاکستان سے ملی حمایت ہی تھی۔
ہم افغانستان کو اپنے خوف اور وہم کے زیر اثر بنائی پالیسیوں سے ڈیل کرتے ہیں۔ فاٹا والوں کو باعزت روزگار، کمائی اور شہری حقوق کا ذمہ ہمارا ہے۔ جب وہ وفاق سے راضی تھے تو فوج کی تعیناتی کے بغیر روس کی موجودگی میں ڈیورنڈ لائن پرسکون رہی۔ جبکہ ہم واضح طور پر روس کے خلاف جنگ میں اترے ہوئے تھے۔
امریکا اور اتحادیوں کی موجودگی اور روانگی میں افغانستان کی ڈائنامکس بھی بدلی ہیں۔ لویا پکتیا (خوست، پکتیا، پکتیکا) والوں نے جنگ میں اپنا آپ منوایا ہے۔ حقانیوں نے لویا پکتیا کی قیادت کی ہے۔ اس ایریا کے ہمارے فاٹا سے گہرے قبائلی سماجی تعلقات ہیں۔ ہم کابل سے بات کرتے ان تعلقات پر زیادہ انحصار کرنے کی غلطی کر رہے ہیں۔
2012 میں پاکستان اور افغانستان نے جے سی سی جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی بنائی تھی۔ اس کے اب تک 7 اجلاس ہو چکے ہیں۔ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اس کمیٹی کے 2 اجلاس ہوئے ہیں۔ دونوں بار اس افغان سائیڈ سے اس کمیٹی کی سربراہی قندھاری ہیوی ویٹس نے کی ہے۔ اپریل میں ہونے والے اجلاس کی صدارت ڈپٹی وزیر دفاع عبدالقیوم ذاکر نے کی۔ 17 ماہ پہلے ہونے والے اجلاس کی صدارت گورنر قندھار ملا شیریں نے کی تھی۔
اگر ہم افغانستان کے حوالے سے اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کر لیں، وہم کرنا چھوڑیں، اس تازہ اعتماد کو ہی کام میں لے آئیں جو حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے بعد ہم میں آیا ہے تو ہم فاٹا کو بھی مطمئین کرنے کے طریقے ڈھونڈ سکتے ہیں، بلوچستان میں وہ غلطیاں دہرانے سے گریز کر سکتے ہیں۔ اور افغانوں سے زیادہ اچھے اور بہتر تعلقات کار قائم کر سکتے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔