چین کا عالمی امن کے لیے قائدانہ کردار

بدھ 18 جون 2025
author image

وقار حیدر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عالمی امن اور استحکام کے لیے چین کی کوششیں نہ صرف قابل تعریف ہیں بلکہ دنیا بھر میں ایک مثالی کردار کی حیثیت رکھتی ہیں۔

چین ہمیشہ سے پرُامن، بقائے باہمی، باہمی تعاون اور ترقی کے اصولوں پر کاربند رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ بین الاقوامی برادری میں ایک اہم ستون کے طور پر ابھرا ہے۔

پرُامن ترقی اور تعاون کی پالیسی:

چین کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ ’پرُامن ترقی‘ ہے۔ چین نے گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے پر امن راستہ اختیار کیا ہے اور دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت اور تعاون کو فروغ دیا ہے۔

’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘ (BRI) جیسے منصوبوں کے ذریعے چین نے نہ صرف ایشیا، افریقہ اور یورپ کے ممالک کے درمیان اقتصادی روابط کو مضبوط کیا ہے بلکہ ان خطوں میں امن اور استحکام کو بھی تقویت بخشی ہے۔

تنازعات کے پرامن حل کی حمایت:

چین ہمیشہ سے بین الاقوامی تنازعات کے پرامن حل کا حامی رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے چین نے شام، شمالی کوریا اور دیگر تنازعات میں ثالثی کی کوششیں کی ہیں۔ چین کا موقف ہے کہ جنگ اور تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ مذاکرات اور سفارت کاری ہی دیرپا امن کی ضامن ہو سکتی ہے۔

چین ہمیشہ سے عالمی امن اور استحکام کا حامی رہا ہے اور مختلف بین الاقوامی تنازعات میں ثالثی اور سفارتی کوششیں کرتا رہا ہے۔ پاکستان-بھارت، فلسطین اور روس-یوکرین جیسے پیچیدہ مسائل میں چین نے پرامن حل کی حمایت کی ہے اور تناؤ کو کم کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان-بھارت تنازع میں چین کا کردار:

ویسے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی بڑی وجہ کشمیر ہے، اور مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کیلئے اب تک ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر چین نے ہمیشہ مذاکرات اور بات چیت کی حمایت کی ہے۔

چین نے کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری پر زور دیا ہے۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں بھی چین نے پرُ امن مذاکرات کی بات کی ہے اور خطے کو کسی بڑی تباہی سے بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کیا ہے۔

چین نے بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ تجارتی و دفاعی تعلقات کو برقرار رکھا ہے، جو تناؤ کو کم کرنے میں معاون ہے۔ اسکے علاوہ چین پاکستان کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے ذریعے پاکستان کی معاشی ترقی کو فروغ دے رہا ہے، جس سے خطے میں امن کا ماحول بنانے میں مدد ملتی ہے۔

مسئلہ فلسطین پر چین کا موقف:

فلسطین کا مسئلہ دہائیوں سے عالمی امن کے لیے ایک اہم چیلنج بنا ہوا ہے۔ چین نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے حق خودارادیت اور 2 ریاستی حل کی حمایت کی ہے۔

چین نے سلامتی کونسل میں فلسطین کے حق میں ووٹ دیا ہے اور اسرائیلی قبضے کی مخالفت کی ہے۔ حالیہ جنگ میں بحی چین نے فلسطینی علاقوں تک امداد پہنچا نے میں بھرپور معاونت کی ہے۔

اس کے علاوہ چین نے ’فلسطین امن کانفرنس‘ جیسے فورمز میں فعال کردار ادا کیا ہے اور پرامن حل کی تجاویز پیش کی ہیں۔اور اسی کے ساتھ جڑی ایران – اسرائیل کی جنگ میں بھی ایران نے جنگ کے خاتمے اور مذاکرات کی بات کی ہے۔

روس-یوکرین جنگ میں چین کا امن کا ایجنڈا:

روس-یوکرین جنگ نے عالمی امن کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ چین نے اس تنازعے میں غیر جانبدار رہتے ہوئے پرامن مذاکرات کی حمایت کی ہے۔چین نے نہ تو روس کی فوجی مدد کی ہے اور نہ ہی یوکرین کو اسلحہ فراہم کیا ہے، بلکہ دونوں فریقوں سے بات چیت کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ چین نے یوکرین اور روس دونوں کے ساتھ تجارتی تعلقات جاری رکھے ہیں تاکہ معاشی بحران کو مزید گہرا ہونے سے روکا جا سکے۔

چین بطور  ایک پرامن عالمی رہنما اور ثالث:

چین نے پاکستان-بھارت، فلسطین/ ایران – اسرائیل اور روس-یوکرین جیسے پیچیدہ تنازعات میں پرامن حل کی حمایت کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ عالمی امن کا ایک اہم ستون ہے۔

چین کی خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد تنازعات کو مزید بڑھنے سے روکنا اور مذاکرات کے ذریعے پائیدار امن قائم کرنا ہے۔ مستقبل میں بھی چین ایک متوازن اور پرامن عالمی نظام کے قیام کے لیے کوشاں رہے گا۔

انہیں تنازعات کے پرُ امن حل کیلئے چین نے ایک عالمی ثالثی ادارے کے قیام کا بھی بیڑا اُٹھایا ہے۔ 30 مئی 2025 کو چین کے ہانگ کانگ میں 33 ممالک کے مندوبین نے ’بین الاقوامی ثالثی ادارے‘ کے کنونشن پر دستخط کیے اور اس کے بانی رکن ممالک بن گئے۔

کنونشن کے مطابق، 3 یا اس سے زائد ممالک کے داخلی قانونی طریقہ کار کے ذریعے تصدیق ہونے پر یہ ادارہ سرکاری طور پر قائم ہو جائے گا۔ اس ادارے کا ہیڈ کوارٹر ہانگ کانگ میں ہو گا اور یہ 2026 کے آغاز تک اپنا کام شروع کر دے گا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ بین الاقوامی قانون کے نفاذ  کے حوالے سے ایک انقلابی قدم ہے جو ثالثی کے میدان میں موجود خلا کو پرُ کرے گا اور عالمی حکمرانی کو بہتر بنانے کے لیے ایک اہم قانونی پلیٹ فارم مہیا کرے گا۔ یہ چین کی جانب سے عالمی امن کے فروغ کے لیے ایک اور اہم کاوش ہے۔

یہ ادارہ بین الاقوامی تنازعات کو ثالثی کے ذریعے حل کرنے والی دنیا کی پہلی بین الحکومتی قانونی تنظیم ہے، 2022 میں چین اور 18 دیگر ممالک نے مشترکہ طور پر اس کا تصور پیش کیا تھا۔ اس کے قیام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ رضاکارانہ بنیاد پر ممالک کے درمیان، ممالک اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے درمیان، یا بین الاقوامی تجارتی میدان میں تنازعات کو ثالثی کے ذریعے نمٹایا جا سکے۔

موجودہ دور میں دنیا نئے انتشار اور تبدیلیوں کے دور سے گزر رہی ہے۔ جغرافیائی سیاسی تصادم بڑھ رہے ہیں، یکطرفہ پالیسیاں اور تحفظ پسندی عروج پر ہے۔ ایسے ماحول میں کچھ ممالک بالادستی کے رویے یا جنگی اقدامات کا سہارا لیتے ہیں۔

دوسری جانب، موجودہ بین الاقوامی تنازعات حل کرنے والے ادارے بعض مغربی ممالک کی سیاسی چال بازیوں کی وجہ سے یا تو غیر منصفانہ ہو چکے ہیں یا عملاً غیر فعال ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کنونشن پر دستخط کرنے والے 33 ممالک میں زیادہ تر ترقی پذیر ممالک شامل ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں جب بین الاقوامی تنازعات پیدا ہوتے تھے تو عالمی جنوب کے ممالک کے مفادات کا حقیقی تحفظ نہیں ہوتا تھا۔  اس ادارہ  کا قیام  تنازعات کے حل  کیلئے ایک نیا دور ثابت ہوگا۔

ہانگ کانگ میں ہیڈکوارٹر کا انتخاب بھی ایک اہم پیغام رکھتا ہے۔ ایک طرف، ہانگ کانگ کی چین میں واپسی خود بین الاقوامی تنازعے کے پرامن حل کی ایک کامیاب مثال ہے۔

دوسری طرف، ہانگ کانگ کو جغرافیائی اور قانونی نظام کی مضبوطی کی وجہ سے بین الاقوامی ثالثی کے لیے مثالی مقام حاصل ہے۔ یہ چین کی عالمی امن کے لیے کوششوں اور قربانیوں کا ایک اور ثبوت ہے۔

امید کی جاتی ہے کہ یہ ادارہ بین الاقوامی تنازعات کے پرامن حل، ممالک کے درمیان اعتماد اور تعاون کو نئی توانائی فراہم کرے گا۔ جب یہ نوزائیدہ ادارہ ایک مضبوط درخت بن جائے گا، تو دنیا میں امن اور خوشحالی کے امکانات مزید روشن ہوں گے۔

انسانی حقوق اور ترقیاتی تعاون

چین ترقی پذیر ممالک کی مدد کے لیے سرگرم عمل ہے۔ افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا کے کئی ممالک کو چین نے بنیادی ڈھانچے، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں معاونت فراہم کی ہے۔ چین کی یہ کوششیں نہ صرف غربت کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوئی ہیں بلکہ ان خطوں میں امن اور خوشحالی کو بھی فروغ دے رہی ہیں۔

ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار ترقی

عالمی امن صرف تنازعات کے خاتمے تک محدود نہیں، بلکہ یہ ماحولیات اور پائیدار ترقی سے بھی جڑا ہوا ہے۔ چین نے کاربن کے اخراج میں کمی اور قابل تجدید توانائی کے استعمال کو بڑھانے کے لیے بڑے اقدامات کیے ہیں۔ بین الاقوامی ماحولیاتی معاہدوں میں چین کی فعال شرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی بلکہ پوری دنیا کی بہتری کے لیے کوشاں ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp