سیاسی معاملات سے احتراز، سیاستدانوں اور میڈیا کی تنقید سے شاکی اور بظاہر پورے ملک میں ایک ہی وقت میں انتخابات کے انعقاد پر مائل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت اس آبزرویشن کے ساتھ ملتوی کر دی کہ مناسب حکم جاری کریں گے۔
سماعت کے آخر میں چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مذاکراتی عمل کو سیاستدانوں پر چھوڑتے ہیں۔
طرفین میں اتفاق رائے
آج کی سماعت میں اہم بات یہ تھی کہ طرفین نے عدالت کو بتایا کہ اس بات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے کہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم کیا جائے گا۔ دوسری اہم بات چیف جسٹس کی طرف سے یہ عندیہ کہ آرٹیکل 63 اے والے معاملے پر نظر ثانی اپیل کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔
اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما خواجہ سعد رفیق نے عدالت سے گزارش کی کہ مذاکرات کے حوالے سے کوئی ہدایات جاری نہ کی جائیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم اس حوالے سے کوئی حکم نامہ جاری نہیں کریں گے۔
اس مقدمے کے درخواست گزار شاہ خاور ایڈووکیٹ نے عدالت سے درخواست کی کہ مقدمے کو نمٹا دیا جائے۔ کمرہء عدالت کے باہر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے خیال سے درخواست نمٹا دی جائے گی۔
آئین میں 90 روز کا حکم ہے
خواجہ سعد رفیق نے عدالت کے سامنے موقف اپنایا کہ آئین میں 90 روز کا حکم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ صاف شفاف انتخابات کا بھی حکم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب بہت بڑا صوبہ ہے اور اگر یہاں قبل از وقت انتخابات ہو جاتے ہیں تو اس کا اثر باقی صوبوں کے انتخابات پر پڑے گا۔ باقی صوبے پہلے ہی پنجاب پر الزام لگاتے ہیں کہ وفاقی اکائیوں میں یہ صوبہ زیادہ طاقتور ہے۔
پنجاب کے انتخابات کا اثر باقی صوبوں پر پڑے گا
اب اگر پنجاب کے انتخابات کا اثر باقی صوبوں پر پڑے گا تو پھر سے اس کا الزام پنجاب پر آئے گا۔ انہوں نے چیف جسٹس سے گزارش کی آپ پنجاب کو اس الزام سے بچائیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ گو کہ یہ دلائل سیاسی نوعیت کے ہیں لیکن آپ یہ تحریری طور پر بھی تو دے سکتے تھے۔
خوشگوار ماحول میں عدالتی کارروائی
آج عدالتی کارروائی ایک خوشگوار ماحول میں ہوئی اور اس میں سابقہ تلخی موجود نہیں تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے فاروق ایچ نائیک جب کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے خواجہ سعد رفیق نے مذاکراتی عمل کی پیش رفت پر امید ظاہر کی کہ یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتا ہے اور کسی نتیجے تک پہنچنے کے لئے مزید وقت درکار ہے۔
اپنے موقف سے کافی پیچھے آئے ہیں، خواجہ سعد
خواجہ سعد رفیق نے عدالت کو بتایا کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملے پر ہم اپنے موقف سے کافی پیچھے آئے ہیں اور ایک تاریخ مقرر کرنے کے قریب ہیں لیکن ابھی یہاں میڈیا کے لوگ بیٹھے ہیں اس بات کا اعلان نہیں کر سکتے اس سے خرابی کا امکان ہے۔
حکومتی اتحاد مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں، شاہ محمود قریشی
دوسری جانب شاہ محمود قریشی نے پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ حکومتی اتحاد مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں۔ انہوں نے کہا ہماری مذاکراتی ٹیم کے سارے اراکین کے مذاکراتی رپورٹ پر دستخط ہیں جب کہ حکومتی اتحاد کی جانب سے صرف اسحاق ڈار کے دستخط ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا ہم نے ایک وقت میں انتخابات کے لئے شرائط رکھی تھیں، جس میں سب سے پہلی تجویز یہ تھی کہ 14 مئی سے قبل قومی اور 2 صوبائی اسمبلیاں توڑ دی جائیں۔
انتخابات کا انعقاد مشکل ہے، فاروق ایچ نائیک
سماعت کے شروع میں پاکستان پیپلز پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان اس وقت معاشی مشکلات سے گزر رہا ہے۔ ملک کا بیرونی قرضہ 53 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے گردشی قرضوں کی تفصیلات دیں اور عدالت سے کہا کہ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں۔ حکومت نے تجارتی پالیسی کا اعلان کرنا ہے اور بجٹ سے قبل آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ خیز ہونا ضروری ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ان حالات میں انتخابات کا انعقاد مشکل ہے۔
ملک میں عدالتی بحران، چیف جسٹس
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پہلے اس ملک میں آئینی بحران آیا، پھر معاشی بحران اور اب یہ عدالتی بحران ہے، لیکن ایک بحران جس پر کوئی غور نہیں کر رہا وہ ہے سیکیورٹی بحران۔
کچھ شکوے شکایتیں بھی سننے میں آئیں
چیف جسٹس نے کہا کہ آج بھی سیکیورٹی فورسز کے 6 جوان شہید ہوئے ہیں، جس پر شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ اب 8 ہو گئے ہیں۔ اسی تسلسل میں بات کرتے ہوئے چیف جسٹس، جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اگر ہمارے جوان ملک کے لیے جانیں دے سکتے ہیں تو ہم بھی دے سکتے ہیں۔ آج کی سماعت میں کچھ شکوے شکایتیں بھی سننے میں آئیں۔
چیف جسٹس کا شکوہ
چیف جسٹس نے عدالت کے بارے میں میڈیا میں ہونے والی گفتگو بارے شکوہ کیا دوسرا انہوں نے یہ شکوہ کیا کہ حکومت اس عدالتی کارروائی کو سنجیدہ نہیں لے رہی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے تو عدالتی حکم نامے پر نظر ثانی دائر کرنا تک مناسب نہیں سمجھا۔
حکومت نے ’چار تین‘ کا مسئلہ بنایا ہوا ہے
چیف جسٹس نے کہا کہ ان سماعتوں کا ایک پہلو تحلیل شدہ اسمبلیوں کی بحالی کا بھی ہے۔ لیکن کسی نے اس پر بات نہیں کی۔ بلکہ ہمارے جسٹس اطہر من اللہ نے اس پر بات کی۔ انہوں نے حکومتی اتحاد کے بارے میں کہا کہ انہوں نے تو ابھی تک چار تین کا مسئلہ بنایا ہوا ہے۔
ازخود نوٹس لینا ترک کر دیا
اس پر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اس معاملے کے جو پہلو ہم سے چھوٹ گئے عدالت ان پر ازخود نوٹس تو لے سکتی تھی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے ازخود نوٹس لینے ترک کر دیے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے شکوہ کیا کہ 2017 کے بعد سے اس عدالت سے ہمارے خلاف بہت زیادتیاں کی گئی ہیں جس کا میں بھی ایک شکار آپ کے سامنے کھڑا ہوں، انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اداروں میں تصادم نہیں چاہتا، عوام کو صاف پانی نہیں دے سکتے، اداروں میں تصادم کے متحمل کیسے ہوسکتے ہیں۔
ہم پر بہت سنگ زنی ہوئی، خواجہ سعد رفیق
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ مذاکراتی عمل اور یہاں تک آنے تک ہم پر بہت سنگ زنی ہوئی لیکن پھر بھی ہم یہاں آئے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہم نے ضیا کا مارشل لا دیکھا، مشرف کا مارشل لا دیکھا اور پچھلے عرصے میں نقاب پوش مارشل لا بھی دیکھا۔
سیاسی بحران کا حل نکالا جا سکتا ہے
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے ذریعے ہی سیاسی بحران کا حل نکالا جا سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ اہم مسئلہ صاف شفاف انتخابات کا انعقاد ہے اور الیکشن نتائج تسلیم نہ کرنے پر پہلے بھی ملک ٹوٹ چکا ہے۔
ایک صوبے میں الیکشن ہوا تو تباہی لائے گا
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ صرف ایک صوبے میں الیکشن ہوا تو تباہی لائے گا۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ مذاکرات میں طے ہوا ہے کہ یہ لوگ نتائج تسلیم کریں گے، انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کھلے دل سے مذاکرات کیے اس پر ان کا شکر گزار ہوں، انہوں نے کہا کہ میری تجویز یہ ہے کہ مذاکرات جاری رکھنے چاہییں۔عدالت کو سیاسی معاملات میں الجھانے سے پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔
عدالت تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے، چیف جسٹس
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اپنی مدت سے حکومت ایک گھنٹہ بھی زیادہ نہیں رہنا چاہتے لیکن ملک کی قیمت پر الیکشن نہیں چاہتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حالات کے پیش نظر عدالت تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑی بڑی جنگوں کے دوران بھی الیکشن ہوئے، ترکی میں زلزلے کے دوران بھی الیکشن ہو رہے ہیں۔
آئین نہیں توڑنا چاہتے
چیف جسٹس نے خواجہ سعد رفیق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی باتوں سے لگتا ہے آئین نہیں توڑنا چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ جو وجوہات ابھی بیان کی گئی ہیں وہ پہلے بھی کی جا سکتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت الیکشن کمیشن کو فنڈز جاری کرتی اور عدالت کو ان وجوہات سے آگاہ کرتی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو نیک نیتی دکھانی چاہی تھی۔
حل نکل سکتا ہے
ایک موقعے پر درخواست گزار شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا شہباز شریف اور عمران خان مذاکرات میں شامل ہوں تو حل نکل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں قائدین کو ویڈیو لنک پہ لے لیا جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعظم اور عمران خان مصروف لوگ ہیں ان کے نمائندے موجود ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت نے کوئی نئی بات نہیں کی، پرانا موقف دہرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی پوری کوشش کی کہ مذاکرات نتیجہ خیز ہوسکیں لیکن حکومتی بینچز سے عدالتی حکم کی خلاف ورزی اور تکبر والی باتیں آرہی ہیں۔
کیا 2 یا 3 دن میں کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے؟
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو صرف یہ دیکھنا ہے کسی تاریخ پر اتفاق ہوا یا نہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا 2 یا 3 دن میں کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے؟ اس پر شاہ محمود قریشی بولے کہ حکومت کہتی تھی 12 جماعتیں ہیں مشاورت کے لیے وقت دیں۔
آئی ایم ایف مذاکرات
انہوں نے کہا کہ مذاکراتی ٹیم کو وقت دینے کی وجہ سے عمران خان سمیت سب نے ان پر تنقید کی کہ 3 دن کا وقت کیوں دیا، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آئی ایم ایف مذاکرات پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور آئی ایم ایف نے ان کو نہ کہہ دیا ہے۔ عدالت نے ساری بحث سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا