تھائی وزیر اعظم پیٹنٹارن شنواٹرا ایک لیک ہونے والی فون کال کے باعث شدید سیاسی بحران کا شکار ہو گئی ہیں۔
یہ کال جو کمبوڈیا کے سابق وزیراعظم اور موجودہ سینیٹ کے صدر ہن سین کے ساتھ تھی، 17 منٹ طویل تھی اور اس میں پیٹنٹارن نے تھائی فوجی کمانڈر کو ’اپوزیشن‘ قرار دیا، جبکہ ہن سین کو ’انکل‘ کہہ کر مخاطب کیا۔
یہ بھی پڑھیں:تھائی لینڈ: دیوہیکل ہاتھی کا سپر اسٹور پر دھاوا، کیک انڈے کھا کر چلتا بنا
ہن سین نے یہ ریکارڈنگ خود اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر جاری کی جس کے بعد تھائی لینڈ میں سیاسی ہلچل پیدا ہو گئی۔
اس واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے پیٹنٹارن نے عوام سے معذرت کی اور وضاحت دی کہ یہ ایک نجی گفتگو تھی جو سفارتی حکمت عملی کا حصہ تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کال کا مقصد سرحدی کشیدگی کو ختم کرنا اور علاقائی امن کو قائم رکھنا تھا، نہ کہ فوج کو بدنام کرنا یا قومی مفادات کو نقصان پہنچانا۔
یہ بھی پڑھیں:بم کی اطلاع پر ایئر انڈیا پرواز کی تھائی لینڈ کے سیاحتی جزیرے پرہنگامی لینڈنگ
تاہم ان کی اس وضاحت کے باوجود حکومت میں شامل ایک بڑی اتحادی جماعت بھم جایتھی پارٹی نے اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ اس علیحدگی سے حکومت پارلیمنٹ میں اقلیت میں آ گئی ہے، اور نئے انتخابات یا کابینہ میں بڑی تبدیلی کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔
تھائی لینڈ کی فوج اور قوم پرست حلقوں نے اس لیک کال کو ملک کی خودمختاری اور فوج کے وقار پر حملہ قرار دیا ہے۔ مختلف شہروں میں مظاہرے ہوئے ہیں جن میں وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بادشاہت کی توہین کا الزام ، تھائی لینڈ میں امریکی ماہر تعلیم گرفتار
اپوزیشن جماعتوں نے بھی حکومت پر دباؤ بڑھا دیا ہے، اور بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے سیاسی استحکام قائم نہ رکھا تو فوجی مداخلت بھی ممکن ہے۔
یہ واقعہ شنواٹرا خاندان کی سیاسی ساکھ کے لیے بھی بڑا دھچکا بن سکتا ہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے تھائی سیاست میں نمایاں رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس وقت ملک کی سیاست ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے اور مستقبل قریب میں غیر متوقع سیاسی تبدیلیاں ممکن ہیں۔
اس بحران نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ تھائی لینڈ میں سیاسی قیادت اور فوج کے درمیان تعلقات کس حد تک متوازن ہیں اور عوام کے اعتماد کا تحفظ کیسے کیا جا سکتا ہے۔