امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ریپبلکن پارٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کی اس مہم کی حمایت کریں جس کا مقصد ریاستی فنڈ سے چلنے والے نشریاتی ادارے وائس آف امریکا کو ختم کرنا ہے۔
یہ ادارہ 1942 میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازی پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور بعد میں سرد جنگ کے دوران امریکا کی حمایت میں پیغام رسانی کا ایک اہم ذریعہ بن گیا۔
یہ بھی پڑھیں:ڈونلڈ ٹرمپ نے وائس آف امریکا (VOA) کے ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر کیوں بھیجا؟
تاہم صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ حالیہ دہائیوں میں وائس آف امریکا نے جانبداری اختیار کر لی ہے، اور وہ اسے حکومتی فضول خرچی ختم کرنے کی اپنی مہم کے تحت بند کرنا چاہتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے بدھ کے روز اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ کوئی ریپبلکن آخر کیوں ڈیموکریٹسں کے ترجمان وائس آف امریکا کو جاری رکھنا چاہے گا۔ ’یہ ایک مکمل بائیں بازو کی تباہی ہے، کوئی بھی ریپبلکن اس کے بچاؤ میں ووٹ نہ دے، اسے ختم کر دو۔‘
مزید پڑھیں:وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
اسی دن ٹرمپ کی سینئر مشیر کاری لیک نے امریکی ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کو بتایا کہ وائس آف امریکا کی نگرانی کرنیوالا ادارہ یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا یعنی یو ایس اے جی ایم جڑ سے بوسیدہ ہوچکا ہے اور اسے صدر ٹرمپ کے امریکا فرسٹ نظریے کے مطابق ازسرِنو تشکیل دیا جانا چاہیے۔
کمیٹی کے چیئرمین برائن ماسٹ نے یو ایس اے جی ایم کو ’جاسوسوں، جھوٹ اور بدانتظامی کا گڑھ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ اسی پروپیگنڈے کو فروغ دے رہا ہے جس کے خلاف اسے بنایا گیا تھا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ادارہ غیر ملکی افراد کو ملازمت دیتا ہے، جن میں سے کئی ’حقیقی معنوں میں سیکیورٹی رسک‘ ہیں۔
مزید پڑھیں:بی بی سی اور وائس آف امریکا پر پابندی عائد
کاری لیک نے، جنہیں ٹرمپ نے اس ادارے کو ختم کرنے کی نگرانی کی ذمہ داری تفویض کی ہے، گزشتہ ہفتے بتایا کہ یو ایس اے جی ایم اور وائس آف امریکا میں تقریباً 640 مستقل ملازمین اور 500 سے زائد کنٹریکٹرز کو فارغ کیا جا چکا ہے۔
ڈیموکریٹس اور آزادی صحافت کے علمبرداروں نے اس اقدام پر شدید تنقید کی ہے، رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز یو ایس اے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کلیٹن ویمرز نے کہا کہ وائس آف امریکا جیسے عوامی نشریاتی اداروں کی مکمل تباہی، ٹرمپ کی طرف سے چین اور ایران جیسے آمرانہ سینسرشپ والے ممالک کے لیے ایک بے مثال تحفہ ہے۔