’یہ بہت ہی زوردار دھماکا تھا۔ ایسا لگا جیسے میرے پیروں سے زمین نکل گئی ہو اور کچھ ہی لمحوں بعد جب میں وہاں پہنچا تو قیامتِ صغری کا منظر تھا۔ شیرٹن ہوٹل جو اب موون پک میں بدل چکا ہے، اس کے سامنے کھڑی بس مکمل طور پر تباہ ہوچکی تھی جسے ایک گاڑی نے دھماکا خیز مواد سے اڑایا تھا‘۔
یہ یادیں تھیں کراچی کے مقامی رپورٹر راجہ کامران کی جو آج سے 21 سال پہلے کراچی میں ہونے والے ایک بم دھماکے کو یاد کررہے تھے۔
کچھ ایام، کچھ یادیں اور واقعات ایسے ہوتے ہیں جنہیں یاد کرنے کو ہرگز جی نہیں چاہتا، خواہش ہوتی ہے کہ وہ ذہنوں سے ایسے ہی مٹ جائیں جیسے ہمارے ذہنوں سے وہ کردار مٹ جاتے ہیں جنہوں نے ہم پر کبھی احسان کیا ہوتا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے ایسے واقعات ہمیشہ ہماری یادوں کا حصہ بن جاتے ہیں اور انہی میں سے ایک واقعہ کراچی میں آج سے 21 سال پہلے ہونے والا وہ اندوہناک بم دھماکا ہے جو عالمی خبروں کی زینت بن گیا کیونکہ اس واقعے میں 11 فرانسیسی سمیت 14 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔
یہ فرانسیسی وہ تھے جو نیوی کی آرگوسٹو آبدوزوں پر کام کررہے تھے۔ یہ خبر اور بھی بڑی ہوسکتی تھی کیونکہ جس ہوٹل کے باہر یہ خوفناک دھماکا ہوا تھا اس کے بالکل سامنے نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم ٹھہری ہوئی تھی اور اگلے 5 منٹ میں اسے نیشنل کرکٹ اسٹیڈیم کے لیے روانہ ہونا تھا جہاں 2 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز کا دوسرا اور آخری ٹیسٹ شروع ہونے والا تھا۔
یہ واقعہ کس قدر خطرناک تھا اور اس وقت وہاں کیا صورتحال تھی یہ جاننے کے لیے میں نے کرکٹ کمنٹری کے معروف نام قمر احمد سے بھی دریافت کیا۔
قمر احمد نے صورتحال کو یوں بیان کیا کہ ’پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ میچ کا آغاز ہونے والا تھا اور میں کوریج کے لیے نیشنل اسیٹڈیم پہنچا تو معلوم ہوا کہ نہ پاکستان کرکٹ ٹیم پہنچی ہے اور نہ ہی نیوزی لینڈ کی ٹیم، اور تھوڑی ہی دیر بعد خبر ملی کہ ہوٹل کے باہر دھماکا ہوا ہے جس میں کئی اموات ہوچکی ہیں۔ بس یہ سنتے ہی میں نے ٹیکسی پکڑی اور ہوٹل کی طرف روانہ ہوگیا۔ جب میں ہوٹل کے قریب پہنچا تو ساری سڑکیں بند تھیں اور میں پیدل ہی روانہ ہوگیا۔ کچھ لوگوں نے مجھے روکنے کی کوشش کی مگر میں نے اپنا بی بی سی کا کارڈ دکھایا جس کے بعد مجھے اندر جانے کی اجازت مل گئی۔
مزید پڑھیں
’ہوٹل کے باہر ایک بس کھڑی نظر آئی جو ڈھانچہ بنی ہوئی تھی اور اس وقت وہاں سے نعشوں کی منتقلی ہورہی تھی۔ خیر میں ہوٹل کے اندر پہنچا تو معلوم ہوا کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم جس بس میں اگلے 5 منٹ میں سفر کرنے کا ارادہ رکھتی تھی اس کے تمام شیشے ٹوٹ گئے، یعنی اگر ٹیم پہلے بس میں بیٹھ چکی ہوتی تو بہت زیادہ نقصان ہوجاتا۔ اس کے فوری بعد یہ خبر آگئی کہ میچ ختم کردیا گیا ہے۔‘
راجہ کامران جو ایک ایونٹ کی کوریج کے لیے ہوٹل کی جانب گامزن تھے، انہوں نے آنکھوں دیکھے حال کو مزید یوں بیان کیا کہ ’دھماکے کے وقت نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی اسٹیڈیم روانگی کے لیے تیار تھے مگر اس واقعے کے بعد تمام کھلاڑیوں کو کمروں میں روانہ کردیا گیا تھا‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’واقعے کے بعد میں جناح اسپتال بھی گیا جو تقریباً 2 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، مگر دھماکے کی شدت سے اتنے فاصلے پر موجود عمارتوں کے بھی شیشے ٹوٹ چکے تھے‘۔
اس واقعے سے متعلق قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان انضمام الحق نے بھی اپنے یوٹیوب چینل پر بات کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ ہوٹل میں موجود کسی بھی فرد کو کوئی نقصان نہیں ہوا مگر وہ دھماکا انتہائی خطرناک تھا۔ جس جگہ یہ دھماکا ہوا تھا اسی جانب میرا کمرہ تھا اور میں شکر ادا کرتا ہوں کہ میں کمرے میں نہیں تھا کیونکہ پورے کمرے کی کھڑکیاں اس دھماکے کے نتیجے میں ٹوٹ چکی تھی‘۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی ضمنی بلدیاتی انتخابات؛ دھاندلی کے الزامات کے درمیان پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا
انہوں نے مزید بتایا کہ ’عین دھماکے کے وقت دونوں ٹیمیں ہوٹل سے روانگی کے لیے تیار تھیں۔ مجھے زوردار آواز آئی مگر سمجھ نہیں سکا کہ ہوا کیا ہے، پھر میں نے گارڈ سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ دھماکا ہوا ہے‘۔
انضمام الحق نے یہ بھی بتایا کہ ’دھماکے کے بعد مجھ سمیت تمام کھلاڑیوں سے کہا گیا کہ وہ بیسمنٹ کی طرف چلے جائیں۔ وہاں جاکر دیکھا تو نیوزی لینڈ ٹیم کے کھلاڑی رو رہے تھے کیونکہ انہوں نے اس سے پہلے کبھی بھی ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کیا تھا‘۔
یہ وہ وقت تھا جب خیال کیا جارہا تھا کہ شاید اب نیوزی لینڈ کی ٹیم دوبارہ پاکستان آنے میں تذبذب کا شکار ہو، مگر خوش قسمتی سے کیوی ٹیم نے اگلے ہی سال پاکستان کا دورہ کیا۔ اگرچہ وہ کراچی نہیں آئی مگر 2003 میں 5 ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیلی گئی جس کے ابتدائی 2 میچ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم، تیسرا میچ فیصل آباد کے اقبال اسٹیڈیم اور آخری 2 میچ راولپنڈی میں کھیلے گئے اور پاکستان نے اس سیریز میں کلین سوئپ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: مصنوعی ذہانت کا حامل (AI)ماڈل نیوز روم میں کیا کیا کام کرے گا؟
مگر پھر پاکستان میں 2009 آگیا جب لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا اور تقریباً 10 سال تک ملک میں عالمی کرکٹ کے دروازے بند ہوگئے۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ نا کہ وقت کبھی بھی ایک جیسا نہیں ہوتا، تو دیکھیے جو نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم 2002 میں ایک ناخوشگوار واقعے کے نتیجے میں کراچی سے روانہ ہوگئی تھی وہی نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم 21 سال بعد مئی کے مہینے میں ہی کراچی میں 3 ایک روزہ میچ کھیل کر کل ہی ملک سے روانہ ہوئی ہے۔
پاکستان نے گزشتہ 20، 22 سالوں میں ایسے تلخ اور بدترین حالات کا سامنا کیا ہے جسے بھلانے میں کئی سال لگ سکتے ہیں، مگر اب حالات میں بہتری آرہی ہے جنہیں ایک بار پھر خراب کرنے کے لیے اپنے اور پرائے مسلسل کوشش کررہے ہیں مگر ہماری دعا تو یہی ہے کہ وہ اپنی کوششوں میں کبھی کامیاب نہ ہوسکیں اور پاکستان اس راہ پر گامزن ہوسکے جس کی منزل ترقی اور کامیابی کے سوا کچھ نہ ہو۔