پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اتوار کو ایک ٹویٹ میں کہا کہ عمران خان کی جانب سے میجر جنرل فیصل نصیر پر الزامات کو برداشت نہیں کریں گے اور بغیر ثبوت کے انٹیلی جنس ایجنسیز پر الزامات کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
ان کے اس بیان کے بعد حکومتی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی میجر جنرل فیصل نصیر کی حمایت میں ایک بیان جاری کیا ہے۔
واضح رہے کہ ہفتے کے دن سابق وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں ایک ریلی سے خطاب کے دوران میجر جنرل فیصل نصیر پر الزام عائد کرتے ہوئے انہیں خود پر قاتلانہ حملے کا ذمہ دار قرار دیا اور ساتھ ہی صحافی ارشد شریف کے قتل کا الزام بھی میجر جنرل فیصل نصیر پر دھر دیا۔
میجر جنرل فیصل نصیر کون ہیں؟
میجر جنرل فیصل نصیر اگست 2022 میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی میں انٹرنل ونگ کے سربراہ تعینات ہوئے ہیں۔
انٹرنل ونگ کو عام طور پر ’پولیٹیکل ونگ‘ بھی قرار دیا جاتا ہے اور اسے عرف عام میں صرف ’سی‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس کے سربراہ ڈی جی سی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
میجر جنرل فیصل نصیر اس وقت آئی ایس آئی میں ڈی جی سی کے طور پر کام کر رہے ہیں اور اس عہدے پر تعینات ہونے والے فوجی افسران ماضی میں بھی تنقید کی زد میں آچکے ہیں۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی بطور میجر جنرل اسی عہدے پر تعینات تھے اور انہیں بھی مسلم لیگ ن کی جانب سے سیاسی انجینئیرنگ کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ان کے بعد میجر جنرل عرفان ملک پر بھی مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے سیاسی انجینئیرنگ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
اس کے علاوہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) ظہیر الاسلام بھی ڈی جی سی کے طور پر کام کر چکے ہیں۔
میجر جنرل فیصل نصیر پنجاب رجمنٹ سے کمیشن حاصل کرکے پاک فوج کا حصہ بنے۔ انہوں نے اہنے کیرئیر کا زیادہ تر حصہ ملٹری انٹیلیجنس میں ہی گزارا اور متعدد انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کا حصہ رہے۔
وہ اپنے کیرئیر کے دوران بلوچستان اور سندھ میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کے لیے بھی شہرت رکھتے ہیں۔
انہیں اب تک تمغہ بسالت اور بہادری کے دیگر اعزازات کے علاوہ ایڈمنسٹریٹو اعزازات بھی دیے جا چکے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق آئی ایس آئی کے پولیٹکل ونگ کا مقصد سیاسی قیادت پر نظر رکھنا ہے کہ وہ کسی ملک دشمن عناصر کے ساتھ رابطوں میں ملوث تو نہیں ہیں۔