ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ تہران اپنے یورینیم افزودگی پروگرام سے دستبردار نہیں ہو سکتا، چاہے حالیہ امریکی اور اسرائیلی فضائی حملوں سے اس پروگرام کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ پہنچا ہو۔
امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں عباس عراقچی نے کہا کہ فی الحال یہ پروگرام رُکا ہوا ہے کیونکہ نقصان شدید نوعیت کا ہے، مگر ظاہر ہے ہم اپنے افزودگی پروگرام سے دستبردار نہیں ہو سکتےکیونکہ یہ ہمارے سائنسدانوں کی ایک بڑی کامیابی ہے، اور اب یہ قومی وقار کا مسئلہ بن چکا ہے۔
عراقچی نے انٹرویو کے آغاز میں کہا کہ ایران امریکا کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے، تاہم فی الحال یہ مذاکرات براہِ راست نہیں ہوں گے۔ ’اگر امریکا برابری کی بنیاد پر کسی حل کی طرف آتا ہے تو میں مذاکرات کے لیے تیار ہوں۔‘
یہ بھی پڑھیں:’اسرائیلی جارحیت کا جواز دینا عالمی عدمِ استحکام کو بڑھا سکتا ہے‘،ایران کی یورپی ممالک کو وارننگ
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ہر قسم کے اعتماد سازی اقدامات کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ امریکا ایران پر عائد پابندیاں ختم کرے۔
In a Monday interview with Fox News' Bret Baier, Iranian Foreign Minister Abbas Araghchi acknowledged significant damage to Iran’s Fordow, Natanz, and Isfahan nuclear facilities from last month’s U.S. Air Force and Navy strikes. He noted that Iran has halted uranium enrichment… pic.twitter.com/RE6tRcAn2W
— Global Report (@Globalrepport) July 22, 2025
عباس عراقچی کا کہنا تھا ہمارے جوہری پروگرام کے لیے ایک مذاکراتی حل ممکن ہے، ہم ماضی میں ایسا کر چکے ہیں اور اب بھی تیار ہیں۔ ’میرا امریکا کو پیغام ہے کہ آئیں، ایران کے جوہری پروگرام کے لیے ایک باہمی طور پر طے شدہ حل تلاش کریں۔‘
یہ بیان ایک 16 منٹ کے انٹرویو کا حصہ تھا جو فاکس نیوز پر نشر ہوا، ایک ایسا چینل جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خاص طور پر دیکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں:’ہمارا ہاتھ ٹریگر پر ہے‘، سینیئر ایرانی اہلکار کی اسرائیل اور امریکا کو سخت وارننگ
یاد رہے کہ رواں سال کے آغاز میں تہران اور واشنگٹن کے درمیان جوہری معاہدے سے متعلق بات چیت ہو رہی تھی، سات سال بعد جب امریکی صدر ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ طے شدہ جوہری معاہدہ یعنی جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن ختم کر دیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنی جوہری تنصیبات کو بین الاقوامی معائنے کے لیے کھولا تھا، اور بدلے میں اس پر عائد پابندیاں ختم کی گئی تھیں۔
ٹرمپ نے یہ معاہدہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے اس دعوے کے بعد ختم کیا تھا کہ ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ ایران نے ہمیشہ کہا ہے کہ اس کا افزودگی پروگرام مکمل طور پر پرامن اور شہری مقاصد کے لیے ہے۔
مزید پڑھیں:100 سے زائد ایرانی عہدیداروں سے تعلق کا الزام، کیا فرانسیسی صحافی کیتھرین شکدم جاسوس تھی؟
امریکا اور ایران کے درمیان مئی میں مذاکرات ہوئے، مگر جون 13 کو اسرائیل کی ایران پر اچانک بمباری کے بعد یہ بات چیت تعطل کا شکار ہو گئی۔ ان حملوں میں ایران کے فوجی اور جوہری مقامات کو نشانہ بنایا گیا، جن میں 900 سے زائد ایرانی اور 28 اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے، اس کے بعد 24 جون کو جنگ بندی کا اعلان ہوا۔
امریکا نے بھی اسرائیلی حملوں میں شمولیت اختیار کی اور امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے دعویٰ کیا کہ اس سے ایران کے جوہری پروگرام کو ایک سے 2 سال پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔
عباس عراقچی نے کہا کہ ایران کی ایٹمی توانائی کی تنظیم اب بھی اس نقصان کا جائزہ لے رہی ہے، اور جلد بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی یعنی آئی اے ای اے کو اپنی رپورٹ دے گی۔
مزید پڑھیں:ایف بی آئی نے پاکستان میں ایرانی سفیر کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کرلیا
آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کی واپسی کی درخواست پر غور کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایران نے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون بند نہیں کیا۔
یاد رہے کہ رواں ماہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے ایک قانون پر دستخط کیے جس کے تحت ایران نے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کر دیا تھا، جس کے بعد معائنہ کار ایران چھوڑ گئے۔
تہران نے آئی اے ای اے اور اس کے سربراہ رافائل گروسی پر سخت تنقید کی، کیونکہ 12 جون کو ایجنسی کی جانب سے ایران پر عدم تعاون کا الزام عائد کرنے والی ایک قرارداد منظور کی گئی تھی، ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ یہی قرارداد اسرائیل کو ایران پر حملہ کرنے کا بہانہ فراہم کرتی ہے۔
مزید پڑھیں:ایرانی سفیر کو استثنیٰ حاصل ہے، ایف بی آئی کی فہرست پر پاکستان کا ردعمل
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفان دوجارک نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ ایران اور یورپی ممالک کے درمیان ہونے والی مجوزہ بات چیت کا خیر مقدم کرتا ہے جو جمعہ کو ترکی میں ہو گی، یورپی ممالک نے خبردار کیا ہے کہ اگر تہران نے مذاکرات کا آغاز نہ کیا تو اس پر بین الاقوامی پابندیاں دوبارہ عائد کی جاسکتی ہیں۔