ڈونگا گلی سے کابل، پشاور اور سینیٹ الیکشن تک

منگل 22 جولائی 2025
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خیبر پختونخوا میں سینیٹ الیکشن سے ایک روز قبل شریف فیملی کا اہم اجلاس ہوا۔ ڈونگا گلی میں میاں نوازشریف، وزیراعظم شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز کی ایک میٹنگ ہوئی۔ اگلے دن سینیٹ الیکشن کے نتائج وہی آئے جو حکومت اور اپوزیشن نے ایک معاہدے میں طے کیے تھے۔ پی ٹی آئی کے 6 اور اپوزیشن اتحاد کے 5 ارکان باآسانی منتخب ہوگئے۔

قیامت کی نشانی ہی ہے کہ پی ٹی آئی نے اچانک سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد اور اتفاق رائے کرلیا۔ پھر اس پر عمل بھی ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں باعزت طریقے سے سینیٹ کے الیکشن ہوگئے۔ اس پارٹی کی طبعیت اور مزاج ہی بے عزت ہوکر بری کرنے کرانے کی ہے۔ مسلم لیگ ن کے ایک سینیٹر کو نکال دیں تو باقی 10 سینیٹرز میں سے 5 سیاسی جماعتوں یعنی پی ٹی آئی، پی پی اور جے یو آئی کے ہیں۔ 5 ایسے ہیں جن کے بارے میں حوالدار بشیر یہی کہہ رہا ہوگا کہ میلا بھی تو ہے۔

مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر نیاز احمد خان سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ نیاز احمد خان شانگلہ کے سابق ضلع ناظم ہیں اور مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر امیر مقام کے صاحبزادے ہیں۔ امیر مقام کے بھائی ڈاکٹر عباد اللہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ ڈاکٹر عباد اللہ نے سینیٹ الیکشن کے بعد اپوزیشن اور پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو مبارکباد دی ہے۔

خیبر پختونخوا میں اگر علی امین گنڈا پور کو ہٹایا جاتا ہے تو ڈاکٹر عباد اللہ مسلم لیگ ن کی جانب سے وزیر اعلیٰ بنیں اس کا امکان بہت زیادہ ہے۔ خیبر پختونخوا میں حکومت تبدیلی کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ وہاں بڑھتی ہوئی بدامنی ہے۔ امیر مقام اور مولانا فضل الرحمان کے پی سے 2 ایسے سیاستدان ہیں جو سب سے زیادہ بار دہشتگرد حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔ تیسرے آفتاب شیرپاؤ ہیں جنہیں دہشتگرد حملوں کا کئی بار نشانہ بنایا گیا۔

ان تینوں سیاسی رہنماؤں کو حملوں کا نشانہ بنانے کی ایک مشترکہ وجہ ہے، اور وہ یہ کہ یہ تینوں ہی صوبے میں سب سے زیادہ عوامی رابطے اور سیاسی سرگرمیاں کرنے والے سیاستدان رہے ہیں۔ سیاسی اجتماعات خوف کو توڑتے ہیں۔ دہشتگردی کا بزنس خوف پر ہی چلتا ہے تو خوف توڑنے والے پھر ٹارگٹ تو ہوں گے۔ اے این پی بھی اسی خوف کے سامنے جھکنے سے انکار پر نشانہ بنی اور بے نظیر کی شہادت بھی اسی لیے ہوئی کہ وہ جہاں جاتی تھیں لوگ ہر خوف سے بے نیاز ہوکر ان کے لیے جمع ہوجاتے تھے۔

لگتا نہیں ہے کہ علی امین گنڈا پور کی حکومت کو عدم اعتماد سے ہٹایا جائے گا۔ پی ٹی آئی اراکین پر 9 مئی کے حوالے سے بہت سے مقدمات ہیں۔ ان مقدمات میں سزائیں ہونے پر یہ ممبران نااہل ہوسکتے ہیں۔ اس کے بعد صوبائی حکومت کی تبدیلی عمل میں آسکتی ہے۔ یہ امکان بھی اس لیے کم ہے کہ نااہلی کی صورت میں اپیل کی گنجائش اور حتمی فیصلے تک بہت سے مراحل ہوتے ہیں۔

علی امین گنڈاپور آگ اگلتے بیان دیتے رہتے ہیں۔ ایک سے زیادہ بار یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ خیبر پختونخوا میں امن کے لیے افغان طالبان سے بات کریں گے۔ اس پر وفاقی حکومت یاد کروا چکی ہے کہ دوسرے ملکوں سے رابطے وزارتِ خارجہ کا ڈومین ہے۔ مارچ 2025 میں افغانستان کے عبوری وزیر تجارت نور الدین عزیزی نے کابل میں پاکستان کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے محمد صادق سے ملاقات کی تھی۔ عزیزی صادق ملاقات کے بعد کابل اسلام آباد میں تناؤ تیزی سے کم ہوا اور تعلقات میں بہتری آئی۔

پاکستان اور افغانستان میں جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کا ٹربل شوٹنگ مکینزم بحال ہوچکا ہے۔ دونوں ملک کابل اور اسلام آباد میں سفیر تعینات کرچکے ہیں۔ اسحاق ڈار کابل کے 2 دورے کرچکے ہیں۔ محسن نقوی کی افغان وزیر داخلہ سے ملاقات ہوگئی ہے۔ افغانستان کے نائب وزیر تجارت احمد اللہ زاحد پاکستان آئے ہیں اور دونوں ملکوں میں تجارتی معاہدہ ہونے کا امکان ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آپ کو سینیٹ الیکشن سے ڈونگا گلی سے کدھر کابل کی سیر کروا رہا ہوں۔ سابق فاٹا کے اضلاع دہشتگردی سے زیادہ متاثر سمجھے جاتے تھے۔ اب ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، بنوں، ٹانک، اورکزئی ایجنسی اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں بدامنی بڑھ چکی ہے۔ یہ سارے علاقے افغانستان کی سرحد سے دُور ہیں اور ہمیشہ سے صوبائی حکومت کے دائرہ انتظام میں رہے ہیں۔

محسن نقوی اور سراج حقانی سے ملاقات کے اگلے دن سمیع یوسفزئی ایک ٹویٹ کرتے ہیں۔ اس میں یہ بتاتے ہیں کہ افغان طالبان کی اپنی لیک دستاویزات کے مطابق 4 سال میں 300 افغان طالبان فائٹر ٹی ٹی پی میں شامل ہوئے ہیں اور ان میں سے 30 مارے گئے ہیں۔

اب آجائیں ڈونگا گلی میں ہاؤس آف شریف کی بیٹھک کی طرف۔ خیبر پختونخوا میں اپنے سب سے بڑے پہلوان کو گھر میں سینیٹ کی ایک سیٹ دے کر وزارتِ اعلیٰ سے باز رکھ لیا گیا ہے؟ اس سے بھی پہلے جے یو آئی کو سینیٹ کی ایک سیٹ واپس کرکے اس سے صورتحال نارمل کرلی گئی تھی۔ پھر پی ٹی آئی سے معاہدہ کرکے سیاسی ماحول کو ٹھنڈا کیا گیا ہے۔ یقیناً اس میں دیگر پارٹیوں کا بھی کردار لازمی ہوگا لیکن ہم اس وقت صرف ن لیگ کی بات کر رہے ہیں۔

سوال ہی سوال ہیں  کہ کیا ن لیگ وزارت اعلیٰ لینے سے انکاری ہے؟ کیا سیاسی اتفاق رائے کی جانب بڑھا جا رہا ہے؟ سیاسی تناؤ کم ہونے جارہا ہے؟ صوبے کو بدامنی سے نجات ملے گی اور یہ سارے بزرگ اکٹھے ہوں گے؟ یا بس ذمہ داری لینے سے ہی بھاگا جارہا ہے۔ اپنے پاس ان میں سے کسی سوال کا جواب نہیں ہے۔ صرف ڈاٹ ملا کر ایک تصویر بنائی ہے۔ سوچنے کا اتنا مشکل کام اکیلا کیوں کروں آپ بھی سوچیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp