امریکا میں غیر ملکی زبانوں کی فلموں کو مقبول بنانے کی راہ میں ہمیشہ سے ایک بڑی رکاوٹ زبان رہی ہے۔ تاہم اب ایک نئی اے آئی ٹیکنالوجی اس رکاوٹ کو آسانی سے عبور کرنے کی امید جگا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مصنوعی ذہانت اور ملازمتوں کا مستقبل: خطرہ، تبدیلی یا موقع؟
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق لاس اینجلس میں قائم آزاد فلمی ادارہ ایکس وائی زیڈ فلمز کے چیف آپریٹنگ آفیسر میکزیم کوٹری کا کہنا ہے کہ امریکا میں غیر ملکی زبانوں کی فلموں کا دائرہ ہمیشہ محدود رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف نیویارک کے ساحلی آرٹ ہاؤس سنیما گھروں تک محدود رہا ہے۔
وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ جزوی طور پر زبان کا ہے۔
مزید پڑھیے: مصنفین مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں کام کھو بیٹھنے کے خدشے کا شکار
“میکزیم کوٹری کا کہنا ہے کہ امریکا کی ثقافت ویسی نہیں ہے جیسی یورپ کی ہے جہاں لوگ سب ٹائٹلز یا ڈبنگ کے ساتھ بڑے ہوئے ہیں۔
کیا زبان کا مسئلہ حل ہوجائے گا؟
اب یہی زبان کی رکاوٹ مصنوعی ذہانت کے ذریعے ہٹائی جا رہی ہے۔
حال ہی میں ایک سویڈش سائنس فکشن فلم ’واچ دی اسکائز‘ کو ایک جدید اے آئی ٹول کے ذریعے انگریزی زبان میں ڈب کیا گیا۔ ڈیپ ایڈیٹر نامی یہ ٹول نہ صرف آواز تبدیل کرتا ہے بلکہ ویڈیو میں اداکاروں کے ہونٹوں کی حرکت کو بھی اس طرح بدلتا ہے کہ وہ اصل میں انگریزی بولتے دکھائی دیں۔
میکزیم کوٹری اس ٹیکنالوجی سے بہت متاثر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ
انہوں نے کہا کہ جب 2 سال پہلے میں نے پہلی بار اس ٹیک کی مثال دیکھی تو لگا کہ اچھی ہے لیکن اب جو کٹ میں نے دیکھی ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ میں پر یقین ہوں کہ عام ناظر کو بالکل اندازہ نہیں ہوگا کہ یہ اصلی زبان نہیں ہے۔
اے آئی ڈبنگ کی بدولت ’واچ دی اسکائیز‘ کو مئی 2025 میں امریکا کے 110 سنیما گھروں میں ریلیز کیا گیا۔
کوٹری کا کہنا ہے کہ اگر یہ فلم انگریزی میں ڈب نہ ہوتی تو کبھی بھی امریکی سنیما گھروں میں ریلیز نہ ہو پاتی۔
مزید پڑھیں: اے آئی نے ویب سائٹس کا مستقبل تاریک کردیا، حل کیا ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک آزاد سویڈش فلم امریکی عوام کے سامنے آئی جو ایک ایسی فلم ہے جو عام حالات میں صرف ایک مخصوص طبقے تک محدود رہتی۔
اے ایم سی تھیٹرز نے عندیہ دیا ہے کہ وہ مستقبل میں بھی اسی اے آئی ڈبنگ ماڈل کے تحت مزید غیر ملکی فلمیں امریکی مارکیٹ میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔













