اٹلی کے مشہور اور دلکش پہاڑی سلسلے ڈولومائٹس میں ایک کے بعد ایک چٹانیں اور چوٹیاں گرنے لگی ہیں جس نے ماہرین اور مقامی آبادی کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔ جب فائیو ٹاورز میں سے ایک ٹاور ٹریفور ٹاور 4 سے 7 جون 2004 کی درمیانی رات کو اچانک زمین بوس ہوا تو یہ واقعہ سب کو غیر معمولی لگا۔ لیکن اب یہ حقیقت سامنے آ رہی ہے کہ پورے سلسلہ کوہ میں پہاڑ آہستہ آہستہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جاپان میں سیاحوں نے پہاڑ فیوجی کی تصاویر بنانے کا نیا طریقہ ڈھونڈ لیا
بی بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق اٹلی کے مشہور اور دلکش پہاڑی سلسلے ڈولومائٹس میں ایک کے بعد ایک چٹانیں اور چوٹیاں گرنے لگی ہیں،فائیو ٹاورز کو 5 بلند چٹانوں کے جھرمٹ کی وجہ سے یہ نام دیا گیا جو آسمان کی طرف اٹھتے پتھریلے پنجے معلوم ہوتے تھے۔ ریفوجیو سکویاتولی نامی ایک سرائے، جو ان چٹانوں کے بالکل قریب واقع ہے، اس وقت بند تھی اس لیے کسی نے آواز نہیں سنی۔ صبح جب لوگ نکلے تو 10 ہزار مکعب میٹر وزنی ٹریفور ٹاور زمین پر گرا ہوا تھا۔
یونیورسٹی آف پادووا کے ماہر ارضیات انتونیو گالگارو کا کہنا ہے کہ اب وہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگلا ٹاور کون سا گرے گا۔ ان کے مطابق انگلش ٹاور میں ایک واضح دراڑ بن چکی ہے جو کسی بچے کے پھسلنے والے پھاٹک جیسی دکھائی دیتی ہے اور جلد ہی یہ الگ ہو کر گرسکتا ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں ڈولومائٹس میں بڑے پیمانے پر لینڈ سلائیڈز اور چٹانیں گرنے کے کئی واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں۔ 2015 میں گرانڈ ورنل اور پیکولا کروڈا روسا، 2016 میں چیما لاسٹی، 2018 میں کاری آلتو، 2021 اور 2025 میں کروڈا مارکورا، اور 2023 میں ساسو لنگو اور چیما توسا کے حصے زمین پر آ گرے۔ ویڈیوز میں پہاڑ کے بڑے بڑے حصے ٹوٹ کر نیچے بہتے پتھریلے دریاؤں میں تبدیل ہوتے دیکھے جاسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا کا وہ قیمتی پتھر جو صرف پاکستان میں پایا جاتا ہے
ماہرین کے مطابق یہ ایک قدرتی عمل ہے۔ یہ پہاڑ لاکھوں سال پہلے سمندر کی تہہ میں موجود ٹراپیکل ایٹولز تھے جو یورپی اور افریقی پلیٹوں کے تصادم کے بعد اوپر اٹھے۔ ان کے نیچے نرم مٹی ہے جس پر کھڑے یہ ڈولومیا پتھر کشش ثقل کے باعث جھکتے اور گھومتے ہیں۔ اس وجہ سے دراڑیں بنتی ہیں اور پھر چٹانیں زمین پر آ گرتی ہیں۔
یونیورسٹی آف میلان بیکوکا کے پروفیسر جیوانی کروستا کہتے ہیں کہ ہر پہاڑ کی تقدیر یہی ہے کہ وہ آخرکار زمین پر آ جائے۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ عمل تیز اور غیر متوقع ہوتا جا رہا ہے۔ مقامی رہائشی بھی محسوس کرتے ہیں کہ زمین پہلے کی نسبت زیادہ نازک ہو گئی ہے۔
ماہرین لینڈ سلائیڈز کو بارش اور فریز تھاؤ سائیکل (یخ بستگی اور پگھلنے کے عمل) سے جوڑتے ہیں۔ پچھلے 30 سے 40 برسوں میں بارش کی شدت 5 سے 20 فیصد تک بڑھی ہے۔ بارش اور برف پانی دراڑوں میں داخل ہو کر جمتی ہے، پھیلتی ہے اور پھر پتھر کو توڑ دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ چٹانوں کو ریڈی ایٹر کی طرح تیزی سے گرم اور ٹھنڈا بھی کر دیتی ہے جس سے وہ اور کمزور ہو جاتی ہیں۔
کچھ خوش آئند پہلو بھی ہیں۔ چونکہ ڈولومائٹس کے پہاڑ باقی آلپس کے پہاڑوں کی طرح زیادہ اونچے نہیں ہیں اس لیے ان میں پرما فراسٹ (قدرتی برفانی گوند) نہیں ہے۔ لیکن بڑے پہاڑ جیسے فالکنر پیک میں یہ پرما فراسٹ موجود ہے اور وہ بھی تیزی سے پگھل رہا ہے۔ جولائی اور اگست 2025 میں فالکنر پیک سے 3 لاکھ سے 4 لاکھ مکعب میٹر چٹان زمین پر آ گری۔
یہ بھی پڑھیں: اسکردو کے برف پوش پہاڑوں میں ریت کا سمندر، سرفہ رنگا کولڈ ڈیزرٹ
اب سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں انسان کیا کرے۔ گالگارو کہتے ہیں کہ قدرت کو روکا نہیں جا سکتا، صرف ساتھ دیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں گاؤں اینی کو پہاڑ کے بالکل قریب بنایا گیا جہاں لینڈ سلائیڈز نے جانی نقصان بھی پہنچایا۔ اس لیے اب کوشش یہ کی جارہی ہے کہ پہاڑوں کی حرکات کو ساؤنڈ سسٹمز کے ذریعے مانیٹر کیا جائے تاکہ بروقت اطلاع مل سکے۔
ماہرین کے مطابق کسی حد تک اس خطرے کے ساتھ جینا سیکھنا ہی اصل حل ہے، کیونکہ قدرتی مقامات کو قدرت کی کارروائی سے نہیں روکا جا سکتا۔ جیوانی کروستا کہتے ہیں کہ ڈولومائٹس یونیسکو کا قدرتی ورثہ ہیں، ثقافتی نہیں، اس لیے ان کی شکل میں تبدیلی فطری عمل ہے۔