مظفرآباد کی گلیوں اور بازاروں میں آج بھی کشمیری ثقافت کی چند دھندلی سی جھلکیاں باقی ہیں۔
35 سال قبل سری نگر سے آنے والے لوگ اپنی آنکھوں میں آزادی کا خواب اور اپنی انگلیوں میں صدیوں پرانا ایک ہنر، ایک کلا بسا کر لائے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوج کا مزاحمت کاروں کے خلاف 12 روزہ طویل آپریشن ناکام، 9 فوجی ہلاک
یہ ہنر ان کے لیے صرف معاش کا سہارا نہیں بنا بلکہ اس کے ذریعے انہوں نے کشمیری روایات اور ثقافت کو بھی زندہ رکھا۔ ان کے ہاتھوں سے تراشے گئے پھیرن، شالیں اور آرائشی اشیا نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں کشمیر کی پہچان ہیں۔
مگر اب یہ ہنر اور یہ روایت وقت کی گرد میں مٹتی جا رہی ہے۔ نئی نسل نہ تو اس فن میں دلچسپی رکھتی ہے اور نہ ہی اسے روزگار کا پائیدار ذریعہ سمجھتی ہے۔
مزید پڑھیے: مقبوضہ کشمیر: پی آئی اے کے لوگو والے غبارے نے بھارتی حکام کی دوڑیں لگوا دیں
مہنگائی، مشینی پیداوار، حکومتی عدم توجہی اور بدلتے رجحانات نے اس دستکاری کو کمزور کر دیا ہے۔ کشمیر کی پہچان تراشنے والے ہاتھ آہستہ آہستہ گم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ فن جو کبھی شناخت اور روزگار دونوں تھا، دھیرے دھیرے معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ دیکھیے جنید خواجہ کی یہ ویڈیو رپورٹ۔