پاکستان کو دہشتگردی کی نئی لہر کا سامنا، قومی ردِعمل کی فوری ضرورت ناگزیر

منگل 9 ستمبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان اس وقت دہشتگردی کی نئی لہر کا سامنا کر رہا ہے جس کی شدت خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سب سے زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور آئی ایس کے پی کی نئی فعالیت بیرونی محفوظ پناہ گاہوں اور اندرونی سیاسی تقسیم کا براہِ راست نتیجہ ہے۔

اصل اسباب کی نشاندہی، پالیسی خلا کی درستی اور ایک ہمہ جہت، ریاستی و سماجی ربط پر مبنی قومی ردِعمل کی فوری ضرورت ناگزیر ہو چکی ہے۔

ماضی کی مصالحتی پالیسی نے مسئلہ گھٹانے کے بجائے اسے طول دیا۔ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات اور ’نرمی‘ کے رویے نے ان گروہوں کو از سرِ نو منظم ہونے کی گنجائش دی حالانکہ ان کا ریکارڈ بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتوں سے جڑا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا: 8 ماہ کے دوران دہشتگردی کے 605 واقعات میں 138 شہری شہید ہوئے، سی ٹی ڈی

آج بھی پی ٹی آئی کی زیرِ قیادت خیبر پختونخوا حکومت اسی روش کی حامل دکھائی دیتی ہے، جس سے کاؤنٹر ٹیررازم آپریشنز متاثر ہوتے ہیں اور دہشتگرد و انتشار پسند حوصلہ پاتے ہیں۔

سیاسی سطح پر قومی بیانیے کو کمزور کرنے کا رجحان بھی واضح ہے۔ ٹی ٹی پی اور اس کے افغان سرپرستوں بارے پی ٹی آئی کی نرم گفتار قومی اتفاقِ رائے کو مجروح کرتی ہے، جبکہ پی ٹی ایم، پی ٹی آئی کے ساتھ تال میل میں ریاستی کارروائیوں کو ’ڈالر وار‘ قرار دے کر انتہاپسند پروپیگنڈا کو آکسیجن دیتی ہے۔

اس طرح کی تقسیم انگیز کہانیاں شہدا کے خون کی توہین اور عوامی اعتماد کی تضعیف کا باعث بنتی ہیں۔

مزید پڑھیں: قطر کی قیادت کا دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے کردار کو خراجِ تحسین

2021 میں افغانستان سے US انخلا کے بعد سرحد پار سے در اندازی کی نوعیت خطرناک طور پر بدل گئی۔ اندازاً 70 تا 80 فیصد دہشتگرد کیڈر جو پاکستان میں داخل ہو رہا ہے وہ افغان شہریوں پر مشتمل ہے جبکہ ٹی ٹی پی لاجسٹک و گائیڈ کا کردار ادا کر رہی ہے۔

صرف 2025 میں ٹی ٹی پی کے ساتھ لڑتے ہوئے 126 افغان شہری ہمارے سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں مارے گئے۔ افغان سرزمین پر 57 سے زائد ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کیمپس ٹریننگ اور حملوں کے لانچ پیڈ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔

افغان عبوری حکومت کی کارروائیاں سطحی اور نمائشی ہیں، کئی جگہ یہ سرگرمیاں محض یہ تاثر قائم رکھنے کے لیے دہشتگردوں کے ساتھ ہم آہنگ دکھائی دیتی ہیں کہ ہم (افغان طالبان) کارروائی کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے ساتھ ہیں، چینی صدر کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات میں مزید کیا باتیں ہوئیں؟

افغان مہاجرین کے نیٹ ورکس اور وسائل کو ٹی ٹی پی اور آئی ایس کے پی نے لاجسٹکس اور بھرتی کے لیے بری طرح استعمال کیا ہے۔ پی ٹی آئی کی زیرِ قیادت خیبر پختونخوا حکومت، افغان مختلف بہانوں کا جواز دے کر غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کے عمل کو کمزور کرتی رہی، حالانکہ یہ قومی سلامتی کی حکمتِ عملی کا بنیادی تقاضا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹس مسلسل بتاتی آئی ہیں کہ افغان سرزمین اور وسائل ٹی ٹی پی، آئی ایس کے پی اور بی ایل اے کی مالی و عملی تقویت کے لیے بروئے کار آ رہے ہیں۔

اندرونِ ملک سیاسی نااتفاقی اور بیانیے کی جنگ نے دشمن کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا ہے۔ پی ٹی آئی، پی ٹی ایم اور اے این پی ریاستی کاؤنٹر ٹیررازم کاوشوں پر ابہام پھیلاتے اور مخالف بیانیوں کو بڑھاوا دیتے ہیں، جس سے سیاسی عدم استحکام اور سماجی کنفیوژن میں اضافہ ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: صدر آصف علی زرداری نے انسدادِ دہشتگردی (ترمیمی) بل 2025 کی منظوری دے دی

دہشتگرد افغان کیمپوں اور پاکستان کے اندر شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر کے آپریشنز کو مزید مشکل بنا رہے ہیں۔

سماج پر اس تمام صورتِ حال کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ شہداء کے خاندان سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ان کی قربانیوں کا احترام کیا جا رہا ہے جبکہ مصالحتی روش اور متضاد سیاسی بیانیے قومی عزم کو مضمحل کرتے ہیں۔

گمراہ کن اطلاعات سے جنم لینے والا ابہام طویل المدتی کاؤنٹر ٹیررازم مہم کے لیے درکار قومی ارادے کو کمزور کرتا ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی قوتیں مصالحتی رجحان کو خیرباد کہیں اور ٹی ٹی پی، بی ایل اے، آئی ایس کے پی اور ان کے فکری سہولت کاروں کے خلاف زیرو ٹالرنس کا واضح، مشترکہ اور غیر مبہم اعلان کریں۔

مزید پڑھیں: ایرانی مسلح افواج کے سربراہ کا فیلڈمارشل عاصم منیر کو فون، سرحد پار دہشتگردی کے خاتمے کے عزم پر اتفاق

پارلیمان، صوبوں اور میڈیا میں ایک ہی رُخ اور ایک ہی پیغام نظر آنا چاہیے۔ افغانستان کے باب میں جوابدہی کی پالیسی سخت اور ہمہ سطوح ہونی چاہیے۔

پاکستان کو دو طرفہ، علاقائی اور اقوامِ متحدہ کے فورمز پر افغان عبوری حکومت پر مسلسل اور بامعنی دباؤ برقرار رکھنا ہوگا کہ وہ محفوظ پناہ گاہیں ختم کرے، لانچ پیڈز بند کرائے اور دہشتگردوں کو سیاسی پردہ فراہم کرنے سے باز رہے۔

مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل بتدریج مگر غیر مبہم ہو، تاکہ دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے والے لاجسٹک و انسانی نیٹ ورکس ٹوٹ جائیں۔

یہ عمل انسانی وقار اور قانون کے مطابق ہو، مستحقینِ تحفظ کے لیے بین الاقوامی فریم ورک کے ساتھ ہم آہنگ رہے، مگر سہولت کاروں، جرائم پیشہ نیٹ ورکس اور جعلی دستاویزی معیشت کے مراکز پر فوری ہاتھ ڈالا جائے۔

مزید پڑھیں: دہشتگردی کے خلاف برسرپیکار بلوچستان پولیس کو نفری کی کمی اور مالی مشکلات کا سامنا

دشمن کے بیانیہ کے خلاف محاذ کو مضبوط بنایا جائے۔ پی ٹی آئی، پی ٹی ایم اور اے این پی کی دوہرے معیار کو دلیل، شواہد اور اخلاقی اتھارٹی کے ساتھ بے نقاب کیا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے عوام کے لیے ترقیاتی منصوبوں کے بروقت نفاذ، سابق فاٹا کی مؤثر انضمام حکمتِ عملی اور سماجی و معاشی اقدامات کے ذریعے ریاستی کمٹمنٹ کا عملی ثبوت دیا جائے، مقامی عمائدین، علما، نوجوانوں اور ڈیجیٹل انفلوئنسرز کو اس مہم کا شریکِ کار بنایا جائے۔

انسدادِ دہشتگردی کے قوانین کا نفاذ شفاف، مسلسل اور خوف و مصلحت سے بالاتر ہو۔ آن لائن یا سیاسی سرگرمی کے پردے میں دہشتگردی کے پروپیگنڈے کو پھیلانے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے، عدالتی عمل کی پاسداری اور مؤثر سرکاری ترجمانی کے ساتھ تاکہ ریاستی جواز اور عوامی اعتماد مزید مضبوط ہو۔

مزید پڑھیں: پاک امریکا بڑھتے تعلقات، دہشتگردی کے خلاف کن امور پر اتفاق ہوا؟

یہ معرکہ صرف عسکری نہیں، سیاسی، نظریاتی اور سماجی بھی ہے۔ ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور آئی ایس کے پی کی نئی لہر کو اس وقت تک فیصلہ کن شکست نہیں دی جا سکتی جب تک بیرونی سرپرستی ختم نہ کی جائے۔

افغان مہاجرین کی واپسی قانون اور نظم کے تحت مکمل نہ ہو، اور بالخصوص پی ٹی آئی، پی ٹی ایم اور اے این پی کی تقسیم انگیز سیاست کا خاتمہ نہ ہو۔ ایک جامع / قومی حکمتِ عملی ہی پاکستان کے پائیدار امن اور استحکام کی ضمانت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

فلسطین سے متعلق پاکستان کی پالیسی واضح، غزہ امن منصوبے پر سیاست نہ کی جائے، اسحاق ڈار

قومی اسمبلی اجلاس سے پاکستان پیپلز پارٹی کا واک آؤٹ، پنجاب حکومت کے رویے پر تحفظات

آزاد کشمیر حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دے دی

امریکا کی کوئٹہ میں ایف سی ہیڈکوارٹرز کے قریب دہشتگرد حملے کی شدید مذمت

فرحان غنی کے خلاف مقدمہ دہشتگردی کا نہیں بنتا، تفتیشی افسر متعلقہ عدالت سے رجوع کریں، فیصلہ جاری

ویڈیو

’صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں پاکستان نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے‘

ٹرینوں کا اوپن آکشن: نجکاری یا تجارتی حکمت عملی؟

نمک منڈی میں چپلی کباب نے بھی جگہ بنالی

کالم / تجزیہ

یہ حارث رؤف کس کا وژن ہیں؟

کرکٹ کی بہترین کتاب کیسے شائع ہوئی؟

سیزیرین کے بعد طبعی زچگی اور مصنوعی دردِ زہ