وفاقی حکومت نے اردو کو بطور قومی زبان نافذ کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں اور ساڑھے 8 کروڑ روپے سے زائد کی لاگت سے نیشنل لینگونچ پروسسنگ لیبارٹری کا پی سی ون منظور کر لیا گیا ہے۔
وفاقی وزارت برائے منصوبہ بندی و ترقی اور خصوصی اقدامات نے اردو کو بطور قومی زبان نافذ کرنے اور فروغ دینے کے لیے ’نیشنل لینگویج پروسیسنگ لیبارٹری‘ این ایل پی، کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔
وزارت قومی ورثہ اور ثقافت ڈویژن اسپانسرنگ ایجنسی ہے جبکہ نیشنل لینگویج پروموشن ڈیپارٹمنٹ (این ایل پی ڈی) اس منصوبے کے عملدرآمد کو یقینی بنائے گی۔
اس منصوبے کا مقصد اردو زبان کی ترویج اور فروغ کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے دیگر زبانوں کے مساوی ترقی دینا ہے۔ این ایل پی جدید ٹیکنالوجیز کی مدد سے اردو زبان میں موجود ورثے کو ہی نہیں دیگر زبانوں میں موجود معلومات، ڈیٹا اور اصلاحات کو اردو کے قالب میں ڈھال کر عالمی زبان دانی کے معیار پر جدید زبان کا درجہ دلانا ہے۔
ڈاکٹر راشد حمید، ڈائریکٹر جنرل این ایل پی ڈی کا اس منصوبے کے حوالے سے کہنا تھا کہ یہ ادارہ اکتوبر 1979 میں قائم گیا تھا جس کا مقصد قومی زبان اردو کو فروغ دینا ہے اور یہ لیب اس ادارے کے تحت قائم کی گئی ہے۔
منصوبے کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے ڈاکٹر راشد حمید نے وضاحت کی کہ اس منصوبے میں مشین ٹرانسلیشن (MT)، اسپیچ ریکگنیشن (SR) اور آپٹیکل کریکٹر ریکگنیشن (OCR) جیسی متعدد ایپلی کیشنز کی تیاری شامل ہے جس سے زبان سیکھنے میں مزید اضافہ ہوگا جب کہ اس منصوبے کے تحت قابل رسائی، سرحد پار مواصلات اور تجارت کو آسان بنانا، لوگوں کو آن لائن مواد تک رسائی کے قابل بنانا، ثقافتی تفہیم کو فروغ دینا اور زبان کے وسائل کو محفوظ رکھنے میں مدد کرنا شامل ہیں۔
2015 میں سپریم کورٹ نے اردو کے سرکاری زبان نفاذ کا حکم دیا تھا
واضح رہے کہ 2015 میں سپریم کورٹ نے حکومت کو آئین کے آرٹیکل 251 کے تحت تمام سرکاری محکموں میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور ساڑھے 8 کروڑ روپے سے زائد کے منصوبے کے نظرثانی شدہ پی سی ون کی منظوری دے دی ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ اپریل 2022 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وفاقی حکومت نے ملک میں ڈیجیٹل تبدیلی کے حوالے سے اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال ان اقدامات کے پیچھے انتہائی محرک رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور نجی شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ایک اسٹیئرنگ کمیٹی قائم کی تھی جس کا مقصد ڈیجیٹل تبدیلی کے نفاذ میں سہولت فراہم کرنا اور ملک کی برآمدات کے حجم میں اضافہ کرنا ہے۔
سیدہ روشن علی نقوی، پروگرام مینیجر این ایل، پی ڈی اس منصوبے کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے بتایا کہ مشین ٹرانسلیشن (MT) ماڈیول کمپیوٹر الگورتھم کا استعمال کرتا ہے تاکہ متن کا انگریزی سے اردو میں خود بخود ترجمہ کیا جا سکے۔ یہ ماڈیول تمام موجودہ سرکاری دستاویزات کا انگریزی سے اردو میں مؤثر طریقے سے ترجمہ فراہم کرے گا، بشمول پالیسیاں، پریس ریلیز، اقتصادی سروے، سالانہ رپورٹس، طویل مدتی منصوبے، خبرنامے، عوامی نوٹس، ٹینڈرز اور اشتہارات شامل ہیں۔
روشن علی نقوی کا قومی زبان کی بقا، ترقی، فروغ اور ترقی کے لیے لیب کی اہمیت پر زور
روشن علی نقوی نے قومی زبان کی بقا، ترقی، فروغ اور ترقی کے لیے لیب کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کے مطابق کے سپیچ ریکگنیشن (SR) اور آپٹیکل کریکٹر ریکگنیشن (OCR) ماڈیولز ڈیجیٹل آلات کو انسانی تقریر کو اردو متن میں پہچاننے اور نقل کرنے کے قابل بنائے گا۔ یہ ٹیکنالوجی اردو آڈیو وسائل کو ڈیجیٹائز کرنے میں مدد کرے گی، جیسے کہ پارلیمانی تقاریر اور میٹنگ منٹس۔ مزید برآں، اسپیچ ریکگنیشن ٹیکنالوجی ان لوگوں کے لیے رسائی اور شمولیت کو بڑھا سکتی ہے جن کی سماعت اور گویائی خراب ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ٹیکنالوجی اردو متن کو بصارت سے محروم افراد تک آڈیو بک کی صورت میں قابل رسائی بنا سکتی ہے۔ ان اور دیگر AI پر مبنی ایپلی کیشنز کے ساتھ اردو مختلف پلیٹ فارمز پر زیادہ قابل رسائی اور قابل استعمال بن سکتی ہے۔
ایڈووکیٹ کوکب اقبال جنہوں نے 2003 میں سپریم کورٹ کے سامنے ایک تاریخی مقدمہ دائر کیا نے اس فیصلے کو ملکی تاریخ کا ایک اہم لمحہ قرار دیا۔ 2015 میں اس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے حکومت کو فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری دفاتر میں اردو زبان کے فروغ کی اشد ضرورت ہے۔