دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر تخلیقی AI امیجز کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ نینو بنانا، جمنائی، گورک، چیٹ جی پی ٹی، میٹا کے ٹولز اور دیگر پروگرامز کے ذریعے لوگ اپنی تصاویر اپ لوڈ کرکے نت نئے تجربات کرتے ہیں، جیسے کہ AI ساڑھی، مشہور شخصیات کے پولاروائڈز اور دیگر تخلیقی رجحانات۔
AI used to animate heads using only one picture
Deep fakes are going to make it very hard to trust any video in the near future.. #AI #deepfakepic.twitter.com/yeJQJFlPao— Matthijs Pontier 🏴☠️Piratenpartij – De Groenen🌻 (@Matthijs85) May 27, 2019
تاہم ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ ذاتی تصاویر کو AI امیج جنریٹرز پر اپ لوڈ کرنے کے سنگین نقصانات بھی ہیں، جو پرائیویسی کے نقصان سے لے کر بڑے سماجی مسائل تک پھیل سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ آپ کی تصاویر کو استعمال کرکے جعلی اور گمراہ کن ’ڈیپ فیکس‘ بنائے جا سکتے ہیں، جو ہراسگی، بلیک میلنگ یا شناخت کی چوری جیسے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ڈیپ فیک سے ڈیٹا چوری تک، اے آئی سے ذاتی تصاویر بنوانا کتنا خطرناک؟
ایک اور بڑا خطرہ یہ ہے کہ تصویر اپ لوڈ کرنے کے بعد صارف اپنے ہی چہرے اور شناخت پر کنٹرول کھو دیتا ہے۔ آپ کی تصاویر کسی بھی تناظر میں، بغیر اجازت استعمال کی جا سکتی ہیں، چاہے وہ پرتشدد یا غیر اخلاقی مواد ہو۔
مزید یہ کہ ایسے رجحانات کی وجہ سے اصلی اور نقلی تصاویر میں فرق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، جس سے ’صحافت، اشتہارات اور بصری ذرائع ابلاغ‘ کو سنگین نقصان پہنچ سکتا ہے۔
Rashmika mandanna tweet#RashmikaMandanna #Rashmika #TeluguFilmNagar #tollywood#TeluguCinema #socialmedia #deepfack #Delhi pic.twitter.com/157aXbY5Xi
— Sivakrishna Vemula (@Sivakrishna244) January 22, 2024
اسی طرح خدشہ یہ بھی ہے کہ کمپنیاں صارفین کی تصاویر کو بغیر اطلاع یا اجازت کے ’تجارتی مقاصد یا دیگر AI ماڈلز کی تربیت‘ میں استعمال کریں۔ پرائیویسی اور ڈیٹا سکیورٹی کے حوالے سے بھی تشویش موجود ہے، کیونکہ تصاویر کے ذریعے بایومیٹرک معلومات جیسے چہرے کے نقوش اور مقامات تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بعض کمپنیاں یہ ڈیٹا تیسرے فریق کے ساتھ شیئر یا فروخت بھی کر سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:رچرڈ گرینل نے پرانی ٹوئٹس ڈیلیٹ کردیں ’انہیں ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے گمراہ کیا گیا‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ AI سسٹمز میں پہلے ہی تعصبات (biases) پائے جاتے ہیں، لہٰذا ان میں اپ لوڈ کی جانے والی تصاویر کے ذریعے صنفی یا نسلی امتیاز مزید بڑھ سکتا ہے، جو نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ سماجی سطح پر بھی خطرناک ثابت ہوگا۔
اسی لیے صارفین کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی تصاویر کسی بھی AI امیج جنریٹر پر اپ لوڈ کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچیں اور ان خطرات کو ذہن میں رکھیں۔