ہر گھر میں خبروں اور موسیقی کا پہلا ذریعہ ابلاغ رہنے کے بعد ریڈیو آج کے دور میں ماضی کی یاد بن کر رہ گیا ہے۔
راولپنڈی میں ریڈیو مکینک جمیل صاحب کا کہنا ہے کہ اب ریڈیو کے پرزے مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے۔
’اگر کبھی کوئی پرزہ مل جائے تو ریڈیو مرمت کر دیا جاتا ہے، لیکن اکثر ایسا ممکن نہیں ہوتا۔‘
الیکٹرونک پرزہ جات کی فروخت سے منسلک سید صاحب کے مطابق ریڈیو نے بطور ذریعہ ابلاغ کئی مراحل طے کیے ہیں۔ پہلے اینالاگ ریڈیو آیا، پھر ڈیجیٹل، اور اب موبائل فونز میں ریڈیو کی سہولت موجود ہے۔
’ان تبدیلیوں کے باعث پرزوں کی طلب کم ہوتی گئی اور نتیجتاً وہ مارکیٹ سے غائب ہو گئے۔‘
ریڈیو سمیت دیگر الیکٹرونک اشیا کے دکاندار بلال نے بتایا کہ چونکہ لوگ اب ریڈیو سیٹ علیحدہ سے خریدتے ہی نہیں، اس لیے اس کی مرمت کی گنجائش بھی کم ہو گئی ہے۔
اگر کوئی صارف ریڈیو خرید بھی لے اور بعد میں اس کی مرمت کروانا چاہے تو پرزے نایاب ہونے کے باعث یہ ایک مشکل کام ہے۔
ایک گاہک نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس بات کا یقین نہیں کہ ان کا ریڈیو مرمت ہو سکے گا۔
یوں لگتا ہے کہ ریڈیو، جو کبھی ہر دل کی آواز تھا، اب ٹیکنالوجی کی تیز رفتار دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ لوگوں کے لیے یہ آواز آج بھی یادوں کا سرمایہ ہے۔