امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر ملکی فلموں پر 100 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، جو ایک غیر معمولی اقدام ہے اور ہالی وڈ کی عالمی کاروباری حکمتِ عملی کو ہلا کر رکھ سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ایپ ’ٹرتھ سوشل‘ پر لکھا کہ امریکا کی فلم سازی کی صنعت غیر ملکی مقابلے کے ہاتھوں پیچھے جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی فلم انڈسٹری کو دیگر ممالک نے ایسے لوٹا ہے جیسے کسی بچے سے کینڈی چھین لی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: ’ ٹیرف ہٹائے تو امریکا مالی طور پر تباہ ہوجائے گا‘، ٹرمپ نےامریکی عدالت کا فیصلہ مستردکر دیا
تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ صدر ٹرمپ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کس قانونی اختیار کا سہارا لیں گے۔ وائٹ ہاؤس نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا، جبکہ وارنر برادرز ڈسکوری، کام کاسٹ، پیراماؤنٹ اسکائی ڈانس اور نیٹ فلکس نے بھی فوری ردِعمل نہیں دیا۔
فی الحال سرمایہ کاروں میں بے چینی دیکھی گئی اور نیٹ فلکس کے حصص ابتدائی کاروبار میں 1.5 فیصد گر گئے۔
ٹرمپ نے رواں سال مئی میں پہلی بار فلموں پر ٹیرف کا عندیہ دیا تھا، مگر اس حوالے سے تفصیلات نہیں دی تھیں، جس سے فلمی صنعت کے بڑے اسٹوڈیوز تذبذب کا شکار رہے کہ آیا یہ پالیسی مخصوص ممالک کے لیے ہوگی یا تمام درآمد شدہ فلموں پر لاگو ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی ٹیرف سے انڈیا کو کتنا نقصان پہنچا؟ ششی تھرور نے بتا دیا
فلمی صنعت کے ماہرین اور قانونی تجزیہ کاروں نے اس اقدام پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلمیں دراصل دانشورانہ املاک اور خدمات کی عالمی تجارت کا حصہ ہیں، جس میں امریکا اکثر سرپلس میں رہتا ہے۔ ایسے میں ٹیرف لگانے کی قانونی بنیاد پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
علاوہ ازیں، جدید فلمیں عام طور پر مختلف ممالک میں پروڈکشن، فنانسنگ، پوسٹ پروڈکشن اور ویژول ایفیکٹس کے مراحل سے گزرتی ہیں، جس سے یہ تعین مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے کہ کون سی فلم واقعی غیر ملکی تصور کی جائے گی۔