بھارتی ریاست اترکھنڈ میں صحافی راجیو پرتاپ کی پر اسرار موت نے کئی سوالات کو جنم دے دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پروپیگنڈا اور جارحیت، بھارتی صحافی اپنے ہی میڈیا پر برس پڑے
پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی موت ایک حادثہ تھی جبکہ ان کے اہل خانہ اور صحافتی حلقے اسے ممکنہ قتل قرار دے رہے ہیں۔
پولیس کا مؤقف
پولیس کے مطابق راجیو پرتاپ کی کار اترا کاشی کے ایک دریا میں گر گئی۔ ان کی کار 19 ستمبر کو دریا سے برآمد کی گئی مگر لاش بہہ گئی تھی جو 10 دن بعد جوشییارہ بیراج سے ملی۔
ایک سینیئر پولیس افسر نے بتایا کہ راجیو کار میں اکیلے تھے اور سی سی ٹی وی فوٹیج بھی اس بات کی تائید کرتی ہے۔
مزید پڑھیے: بھارتی صحافی برکھا دت کا پاکستانی پائلٹ سے متعلق جھوٹا دعویٰ
ان کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار ہے تاکہ موت کی اصل وجہ معلوم ہو سکے۔
اہل خانہ کا مؤقف
راجیو پرتاپ کی اہلیہ مسکان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے شوہر کو ایک مقامی اسپتال پر خبر شائع کرنے کے بعد جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ آخری بار فون پر بات کے فوراً بعد راجیو کا فون بند ہو گیا تھا جس کے بعد وہ لاپتا ہو گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف حادثہ نہیں ہو سکتا بلکہ اغوا اور قتل کا امکان بھی موجود ہے۔
صحافیوں کا ردعمل
اترکھنڈ کے سینیئر صحافی اور پریس کلب آف انڈیا کے سابق صدر اوما کانت لکھیڑا کا کہنا ہے کہ راجیو پرتاپ مقامی سطح پر بدعنوانی کو بے نقاب کر رہے تھے جس سے وہ طاقتور حلقوں کی آنکھ میں کھٹکنے لگے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو سافٹ ٹارگٹ سمجھا جاتا ہے کیونکہ مجرم جانتے ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی کم ہی ہوتی ہے۔
اوما کانت کے مطابق راجیو پرتاپ کو ان کی بے باک صحافت کی قیمت چکانی پڑی۔
صحافتی تنظیموں کا مطالبہ
دہلی یونین آف جرنلسٹس اور دیگر تنظیموں نے راجیو پرتاپ کی موت کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
یونین کی صدر سجاتا مدھوک نے کہا ہے کہ ریاستی حکومت کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ مقامی مسائل پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس معاملے میں فوری کارروائی، ذمہ دار افراد کی گرفتاری اور متاثرہ خاندان کے لیے معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: حوصلہ کریں، سانس لیں: بلاول بھٹو نے بار بار ٹوکنے پر بھارتی صحافی کی کلاس لے لی
راجیو پرتاب اپنے یوٹیوب نیوز چینل ’دہلی اترکھنڈ لائیو‘ پر مقامی بدعنوانیوں کے خلاف خبریں نشر کرتے تھے۔ وہ 16 ستمبر کو لاپتا ہوئے تھے جس کے بعد ان کی اہلیہ نے پولیس میں گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی تھی۔