ریاست کی اولین ذمہ داری شہریوں کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا ہے اور یہی مقصد پولیس جیسے ادارے کے قیام کا جواز بھی بنتا ہے مگر جب وردی پہننے والے ہی قانون شکنی پر اتر آئیں تو پھر تحفظ کا مطلب باقی کیا رہ جاتا ہے؟
یہ بھی پڑھیں: سزائے موت کے مجرم کے اعزاز میں دعوت پر پولیس اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج
ایسے ہی ایک واقعے میں اگست 2024 میں ایبٹ آباد کے شہری ذبیح اللہ نے پولیس اہلکاروں کے خلاف سنگین الزامات پر مقدمہ درج کرایا۔
رپورٹ کے مطابق وہ اپنے غیر ملکی دوست کو ایئرپورٹ سے لے کر ایبٹ آباد جا رہے تھے کہ راستے میں پولیس نے گاڑی روکی اور اے ایس آئی عاطف اور دو اہلکاروں نے تلاشی کے بعد انہیں الگ لے جا کر 2 لاکھ روپے بھتہ طلب کیا۔
کافی منت سماجت کے بعد 50 ہزار روپے پر ’ڈیل‘ طے پائی اور ہتھکڑیاں لگا کر انہیں قریبی اے ٹی ایم سے رقم نکلوانے پر مجبور کیا گیا۔ سمجھا گیا کہ راز دفن ہو جائے گا مگر واقعے کی ویڈیو منظر عام پر آ گئی۔ اب وہی اہلکار حوالات میں بند ہیں اور تفتیش جاری ہے۔
ایسا ہی ایک اور چونکا دینے والا واقعہ کوئٹہ میں پیش آیا جہاں بجلی گھر تھانے کے ایس ایچ او ملک آصف اور ان کے ڈرائیور محمد حسن پر چوری شدہ گاڑی چھپانے کا الزام سامنے آیا۔ جناح روڈ سے چوری ہونے والی گاڑی چند روز بعد پشین اسٹاپ پر ایک پارکنگ میں برآمد ہوئی۔
تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ ملزمان اس سے پہلے بھی کئی چوری شدہ گاڑیاں اسی طرح چھپاتے رہے ہیں۔ ڈی آئی جی کوئٹہ کے حکم پر دونوں کو معطل کر کے گرفتار کر لیا گیا اور وہی حوالات ان کے لیے قیدخانہ بنی۔
مزید پڑھیے: کیس پراپرٹیز غائب کرنے کے جرم میں 2 پولیس اہلکاروں کو قید و جرمانے کی سزا
کراچی میں بھی پولیس اہلکاروں کی مجرمانہ سرگرمیوں کی ایک افسوسناک مثال سامنے آئی۔ شیریں جناح کالونی میں 76 کلو منشیات کی برآمدگی کے بعد انکشاف ہوا کہ سی آئی اے جامشورو کے اہلکاروں نے منشیات کے ایک بڑے حصے کو پولیس موبائل میں اسمگل کر کے کراچی منتقل کیا۔
بعد ازاں رینجرز نے کارروائی کرتے ہوئے وہی منشیات برآمد کیں۔ کیس عدالت میں زیر سماعت ہے اور 6 اہلکاروں پر مقدمہ جاری ہے۔
اسلام آباد میں بھی قانون کے رکھوالے قانون شکن نکلے۔ سب انسپکٹر صہیب علی پاشا پر الزام ہے کہ انہوں نے 2 کم عمر بھکاری بچوں (10 اور 12 سال) کو غیر قانونی طور پر 2 روز تک تھانہ شمس کالونی میں قید رکھا اور ان پر مبینہ طور پر تشدد اور جنسی زیادتی کی۔ میڈیکل رپورٹ نے الزامات کی تصدیق کی اور اب یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
اسلام آباد پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان پہلے بھی اٹھتے رہے ہیں۔ وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق 5 سالوں کے دوران اسلام آباد پولیس کے 102 اہلکاروں کے خلاف 72 فوجداری مقدمات درج ہوئے۔ ان میں سے 20 برخاست، 14 معطل، 12 کی تنخواہیں کم کی گئیں جبکہ 46 اہلکار ناکافی شواہد کی بنیاد پر بری ہو گئے۔
ادارہ جاتی اصلاحات ناگزیر
پولیس اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے آئی جی پنجاب نے کہا ہے کہ فورس میں کرپشن یا اختیارات کے ناجائز استعمال کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ زیرو ٹالرنس پالیسی کے تحت ایسے تمام اہلکاروں کے خلاف قانونی و محکمانہ کارروائی کی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد پولیس سے منسوب سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی آڈیو پر ترجمان کی وضاحت
دوسری جانب جامعہ کراچی کے ڈیپارٹمنٹ آف کرمنالوجی کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر نائمہ سعید کے مطابق پولیس میں بدعنوانی ادارہ جاتی سطح پر سرایت کر چکی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر نائمہ سعید نے کہا کہ بھرتی میں رشوت اور سفارش کے باعث افسران عوامی خدمت کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔
مسئلے کا حل کیا ہے؟
ماہر جرمیات نے کہا کہ برطانوی دور کا پولیس نظام آج بھی ’کنٹرول‘ پر مبنی ہے جسے ‘عوامی خدمت’ کے تصور میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر نائمہ سعید کا کہنا ہے کہ پولیس اصلاحات صرف قانونی نہیں بلکہ اخلاقی اور انتظامی بنیادوں پر بھی ضروری ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: جنوبی وزیر ستان کا طاقتور جرگہ جس نے پولیس پر جرمانہ عائد کردیا
ان کا مزید کہنا ہے کہ شفاف بھرتی، عدالتی نگرانی اور عوامی احتساب کے بغیر پولیس پر عوام کا اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔