پاکستان تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسد عمر کے 2 سال قبل سیاست سے خاموشی سے کنارہ کش ہونے کے بعد، اب ایک بار پھر ان کی واپسی سے متعلق قیاس آرائیاں زور پکڑنے لگی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کے جانب سے متعدد سیاسی، معاشی، بین الاقوامی اور قومی امور پر دیے گئے بیانات نے سیاسی حلقوں میں یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا اسد عمر عملی سیاست میں دوبارہ متحرک ہونے جا رہے ہیں؟
ماضی میں عمران خان کے قریبی رفقاء میں شامل اسد عمر نے 2023 میں سیاست سے دستبرداری اختیار کی تھی۔ تاہم سوشل میڈیا پر ان کی حالیہ سرگرمیاں، پی ٹی آئی قیادت سے تعلق کا اظہار، حکومتی پالیسیوں پر شدید تنقید اور بین الاقوامی امور پر رائے دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ سیاسی دھارے کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے فیصلے تحریک انصاف کے حق میں ہوں یا خلاف، پاکستان میں ہونے چاہییں، اسد عمر
معاشی محاذ پر بات کرتے ہوئے اسد عمر نے موجودہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار پر سخت تنقید کی اور کہا کہ آئی ایم ایف نے اسحاق ڈار کو ہیرا پھیری کرنے پر پہلے بھی پکڑا تھا، اور اس بار 11 ارب ڈالر کے معاملے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان کا یہ بیان حکومت کی معاشی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان بن گیا ہے۔
بین الاقوامی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے امریکا کی جانب سے بگرام ایئر بیس دوبارہ حاصل کرنے کی ممکنہ کوشش پر کہا کہ چین، روس، پاکستان، بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کا اس کوشش کی مخالفت کرنا خوش آئند ہے۔ ان کے بقول، ایسی کسی بھی کوشش سے پورے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔

جوڈیشل نظام سے متعلق 26ویں آئینی ترمیم پر انہوں نے اسے عدالتی ڈھانچے کا بگاڑ قرار دیا ان کے بقول، یہ آئینی ترمیم طویل عرصے تک اثر انداز ہوتی رہے گی۔ ان کا یہ بیان ایک غیر سیاسی مگر پالیسی پر مبنی سنجیدہ نقطہ نظر کو ظاہر کرتا ہے۔
اپنی سیاسی وابستگی کے سوال پر بھی اسد عمر کھل کر سامنے آئے۔ انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو سالگرہ کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا ’دعا ہے کہ آپ جلد اپنے چاہنے والوں کے درمیان ہوں‘۔ یہ بیان اُن کے عمران خان سے اب بھی قائم جذباتی اور نظریاتی تعلق کی غمازی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ غلط تھا، اسد عمر کی عمران خان پر سخت تنقید
انھوں نے حال ہی میں رہائی پانے والے پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے عطاء اللہ اور ایم پی اے سعید آفریدی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور کہا کہ 7 ہفتے ناحق قید کے بعد ان کی واپسی خوش آئند ہے، ان پر الزام صرف یہ تھا کہ انہوں نے قبائلی علاقوں میں امن کے لیے آواز بلند کی۔
بھارت کے حوالے سے اپنے بیان میں اسد عمر نے 2019 اور 2024 کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مودی کو اپنی اوقات میں رہنا چاہیے، افواجِ پاکستان نے دونوں بار اسے ’چنگا ٹھوکا‘ اور سبق سکھایا۔

اسی طرح فلسطین کے معاملے پر بھی انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ فیصلہ کرلیں کہ یہ نام نہاد غزہ امن منصوبہ اچھا ہے یا برا؟ یا پھر یہ شریف خاندان کا وہی پرانا ’اچھا بچہ، برا بچہ‘ فارمولا ہے؟
یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی والوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، اس میں اختلافات ہونا بڑی بات نہیں، اسد عمر
ان بیانات سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ اسد عمر دوبارہ سیاسی گفتگو کا حصہ بننے کے لیے پوری طرح تیار نظر آ رہے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے اب تک کسی بھی سطح پر عملی سیاست میں واپسی کا باضابطہ اعلان نہیں کیا، تاہم ان کی گفتگو اور عوامی رابطے یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ مستقبل قریب میں سیاسی میدان میں دوبارہ قدم رکھ سکتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اسد عمر جس طرح سے معاشی و قومی معاملات پر کھل کر اظہار خیال کر رہے ہیں، وہ صرف ’ریٹائرڈ سیاستدان‘ کا کردار نہیں ہو سکتا۔
اس اہم مسئلہ پر جب وی نیوز کی جانب سے رابطہ کرنے پر اسد عمر کا کہنا تھا کہ میرا فی الحال سیاست میں یا پی ٹی آئی میں شمولیت کا کوئی ارادہ نہیں ہے، میں بطور ایک سیاسی مبصر حالات حاضرہ پر تبصرہ کر رہا ہوں، اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔














