سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے ساتھی جج جسٹس جمال خان مندوخیل سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پارلیمانی قانون ساز ایکٹس کی آئین کے تناظر میں عدالتی تشریح (جوڈیشل سکروٹنی) کے عمل کو عدالتی نظرثانی (جوڈیشل ریویو) کہا جاتا ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ میں ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے بارے میں عدالتی نظرثانی کرتے ہوئے عدالتوں کو بہت محتاط رویہ اور عدالتی تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے پاس پارلیمانی ایکٹس پرعدالتی نظرثانی کا اختیار ہے لیکن اس اختیار کو پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان ایک سرد جنگ میں بدلنے کے بجائے حکمت اور عدالتی تحمل کے ساتھ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ معقول چیزوں کے بارے میں پارلیمنٹ کی اکثریتی رائے میں عدالتوں کی عدم مداخلت، جبکہ آئین کے تناظر میں ممنوعات کے بارے میں مداخلت ہی روشن اور پرامن مستقبل کی ضمانت ہے۔
لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی بنام عمرانہ ٹوانہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس رضوی نے لکھا ہے کہ اگر کوئی مقدمہ قانون کی قلیل یا قدرے کم بنیادوں پر حل ہو سکتا ہے تو عدالت اس میں آئینی معاملات پر فیصلہ دینے سے اجتناب کرے گی۔
مذکورہ آبزرویشنز کے ساتھ جسٹس رضوی نے درخواست گزار شیخ ہمایوں نذیر کی اندراج مقدمہ کی درخواست مسترد کر دی۔
گزشتہ ماہ 14 اپریل کو جاری ہونے والا یہ اختلافی فیصلہ بنیادی طور پر ایف آئی آر کے اندراج کے حوالے سے تھا۔
مقدمے کی تفصیل
مقدمے کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ سپریم کورٹ میں درخواست گزار شیخ ہمایوں نذیر کے خلاف ایک ملٹی نیشنل کمپنی ’اویس حیدر لیاقت نعمان چارٹر اکاؤنٹینٹ کمپنی‘ نے 9 مارچ 2014 کو اسلام آباد کے تھانہ شالیمار میں 22 لاکھ 66 ہزار روپے کے مبینہ غبن کے الزام میں ایک ایف آئی آر درج کرائی جس پر عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا لیکن 19 جولائی 2018 کو مجسٹریٹ کی عدالت نے عدم شواہد کی بنیاد پر شیخ ہمایوں نذیر کو الزامات سے بری کر دیا۔
اپنی بریت کے بعد شیخ ہمایوں نذیر نے تھانہ شالیمار کے ایس ایچ او کو مذکورہ چارٹر اکاؤنٹینٹ کمپنی کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کی درخواست دی۔ پولیس کے ایف آئی آر کے اندراج سے انکار پر ہمایوں نذیر نے جسٹس آف پیس / ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں دفعہ 22 اے کے تحت اندراج مقدمہ کی درخواست دائر کی جو کہ 25 اپریل 2019 کو منظور کر لی گئی جس میں ایس ایچ او کو ہدایت کی گئی کہ قانون کے تحت کارروائی کا آغاز کرے۔
ایس ایچ او نے مقدمے کی ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے مجسٹریٹ کی عدالت میں ایک رپورٹ جمع کرائی کہ اس مقدمے میں تمام الزامات ناقابل دست اندازی پولیس ہیں جس پر مجسٹریٹ کی عدالت نے فیصلہ دیا کہ درخواست گزار صرف اپنا انتقام لینا چاہتا ہے اس لیے مقدمہ درج کرنے کی ضرورت نہیں۔
اس کے بعد شیخ ہمایوں نذیر نے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جو کہ مسترد ہو گئی اور بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے انٹرا کورٹ اپیل بھی مسترد کر دی۔
اس کے بعد شیخ ہمایوں نذیر نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر دی جس میں استدعا کی گئی کہ جسٹس آف پیس/ ایڈیشنل سیشن جج کے حکمنامے کے مطابق ایف آئی آر کے اندراج کے احکامات جاری کیے جائیں۔
جسٹس رضوی نے مجسٹریٹ کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مجسٹریٹ کے پاس مقدمات کی تفتیش اور تفیتیش کو روکے جانے سے متعلق وسیع اختیارات ہوتے ہیں اور اس مقدمے میں مجسٹریٹ نے درست طور پر اپنے اختیارات کا استعمال کیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے لکھا ہے کہ ایسے معاملات جن میں آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت عدالتوں کے اختیارات سماعت کو طے کر دیا گیا ہے کیا وہاں کسی آرڈینینس یا کسی پارلیمانی قانونی سازی کی بنیاد پر کسی درخواست گزار کو اپیل کا حق دیا جا سکتا ہے؟
جسٹس رضوی نے لکھا ہے کہ یہ سوال اس مقدمے کی سماعت کے دوران اٹھایا ہی نہیں گیا تھا لیکن حیران کن طور پر میرے فاضل دوست جسٹس مندوخیل نے خود سے یہ سوال اٹھایا ہے۔
جسٹس رضوی نے لکھا ہے کہ ہمارے سامنے موجود مقدمے کا فیصلہ کرنے کے بجائے ایک ایسا نازک آئینی سوال ہے جس کا اس مقدمے کے ساتھ تعلق نہیں اس کو چیف جسٹس کے پاس ریفر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور اس سوال پر کسی مناسب موقع پر بات کی جاسکتی ہے۔
ان وجوہات کے ساتھ جسٹس رضوی نے شیخ ہمایوں نذیر کی درخواست اپنے مختصر فیصلے کے ذریعے مسترد کر دی تھی جس کی تفصیلی وجوہات انہوں نے اس حکمنامے میں بیان کی ہیں۔