پاک افغان کشیدگی سے امن کا عمل شدید متاثر، ٹی ٹی پی کا قلع قمع کیے بغیر حالات میں بہتری کیسے آئے گی؟

منگل 14 اکتوبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اس سال 19 اپریل کو نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کے دورۂ کابل سے شروع ہونے والا پاک افغان امن عمل ایک بار پھر صفر پر آ چکا ہے جبکہ اس دوران پاکستان افغانستان اور چین کے درمیان دو بار ہونے والے سہ فریقی مذاکرات، سفارتی تعلقات کی اپ گریڈیشن اور تجارتی معاہدات تمام ایک بار پھر صفر پر آ چُکے ہیں۔

کیا 19 اپریل سے شروع ہونے والی کوششوں اور تعلقات کی بحالی کا عمل دوبارہ شروع ہو سکتا ہے؟ کیا دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی باعث بننے والی ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی فیصلہ کُن اقدام ہو سکتا ہے؟ اس تحریر میں ہم اِن ممکنات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستان میں بڑھتی دہشتگردی: کیا افغان طالبان کی ٹی ٹی پی پر گرفت کمزور ہوگئی؟

19 اپریل اسحاق ڈار کے دورۂ کابل کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کے درمیان جمی برف تیزی سے پگھلنا شروع ہوئی جس کے بعد مئی میں اسحاق ڈار نے کابل کا دورہ کیا اور پاکستان ازبکستان کے درمیان براستہ افغانستان ٹرین چلانے کا اعلان بھی کیا گیا۔

لیکن اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہیں، جو 11 اور 12 اکتوبر کو شدید فوجی کشیدگی کے بعد خراب تر ہو گئے۔ دونوں اطراف نقصان ہوا لیکن زیادہ نُقصان افغانستان کی طرف ہوا جنہوں نے پاکستان سے جنگ بندی کی درخواست کی جس کو قبول کیا گیا۔

اس سے ایک طرف پاکستان افغان قائم وزیرِخارجہ نے بھارت میں کھڑے ہو کر مسئلہ کشمیر پر بھارتی مؤقف کی حمایت کر دی اور ایسا کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا تو دوسری طرف پاکستان نے اپنی اِس خواہش کا اظہار کر دیا کہ وہ افغانستان میں تمام فریقوں پر مشتمل ایک ہمہ جہت حکومت چاہتا ہے یعنی افغانستان کے اندر طالبان کی ساتھ ساتھ دوسرے فریقوں کو بھی حکومت میں شامل کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے: طالبان جارحیت پر پاک فوج کے بھرپور جواب کی ویڈیوز وائرل، عوام کا زبردست خراج تحسین

کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیاں حالات کی بہتری کا کوئی اِمکان ہے اور کیا دونوں ممالک بات چیت میں آنے والے تعطل کو دوبارہ شروع کر سکتے ہیں، یہ ایک سوال ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے مستقل کو طے کرے گا۔

حالیہ تصادم میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر بلا اشتعال حملوں الزام لگایا ہے۔ پاکستان نے اس فوجی تنازعے کے دوران مبیّنہ طور پر خارجی تشکیلات کو پاکستان میں داخلے سے روکتے ہوئے حملہ پسپا کیا بلکہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر بھی حملے کیے۔ کابل کا یہ کہنا ہے کہ یہ حملے اُن کی خود مختاری اور سالمیت کے خلاف تھے۔

پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی کی بُنیادی وجہ

اپریل اور مئی میں اسحاق ڈار کے دورۂ بھارت کے بعد پاکستان نے بہت سے معاملات جیسا کہ بارڈر پر داخلے کے حوالے سے نرمی اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے مطالبات تسلیم کئے لیکن اس عرصے کے دوران پاکستان کا افغانستان سے صرف ایک ہی مطالبہ رہا کہ افغان طالبان حکومت افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں سے روکے، جس پر افغان حکومت نے اِتفاق بھی کیا۔

یہ بھی پڑھیے: ہمارے ہوتے ہوئے کوئی ملٹری آپریشن نہیں کر پائے گا، نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کا پہلا خطاب

تاہم فتنۃ الخوارج اور فتنۃ الہندوستان کی کاروائیوں میں افغان سرزمین کے استعمال کو روکا نہ جا سکا۔ اور پاکستان میں ٹی ٹی پی حملوں میں درجنوں فوجی جوان، آفیسرز ، پولیس افسران اور عام شہری جامِ شہادت نوش کرتے رہے۔

دوسرا معاملہ افغان مہاجرین کی واپسی سے متعلق تھا جس پر بھی پاکستان حکومت نے رعایتیں دیں۔

سفارتی تناؤ

پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اِس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی سفارتی تعلقات نہیں صرف یہ ہے کہ دونوں طرف جنگ بندی ہے لیکن کسی بھی وقت یہ دوبارہ شروع ہو سکتی ہے اور اس لئے ہم اپنے دفاعی اقدامات سے غافل نہیں رہ سکتے۔

سرحدی بندش

اس وقت تازہ ترین صورتحال کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان سرحدیں بند ہیں۔ صرف چمن پہ بابِ دوستی سرحد کو افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے کھولا گیا ہے۔ سرحد کے دونوں اطراف تجارتی مال سے لدے ٹرک پھنسے ہوئے ہیں جس سے دونوں ملکوں کی معیشت کو خطرات ہیں

یہ بھی پڑھیے: سرحدی کشیدگی میں کمی کے بعد بابِ دوستی جزوی طور پر فعال، افغان مہاجرین کی واپسی دوبارہ شروع

بین الاقوامی ردعمل

روس، چین، سعودی عرب، قطر اور امریکہ نے تناؤ کم کرنے اور ڈائیلاگ کی اپیل کی۔ روس  نے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا، جبکہ چین نے ڈائیلاگ پر زور دیا۔

مستقبل قریب میں مذاکرات کا امکان نظر نہیں آتا، طاہر خان

افغان امور پر گہری نگاہ رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا پاکستان اور افغانستان کے حالات جس طرف جا رہے ہیں وہ خطرے سے خالی نہیں۔ کل رات تک جو دونوں طرف سے بیانات آئے ہیں وہ حوصلہ افزاء نہیں۔

یہ بھی پڑھیے: افغان طالبان جارحیت کیخلاف غیور بلوچ قبائل پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اب ’افغان حکومت‘ کی بجائے ’طالبان رجیم‘ کہنا شروع کر دیا ہے اور حالیہ فوجی کشیدگی کے تناظر میں دفترِ خارجہ نے جو بیان جاری کیا اُس میں پاکستان کی اِس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان افغانستان کے اندر تمام فریقین پر مشتمعل ایک حکومت چاہتا ہے جو اِس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں حکومت کی تبدیلی چاہتا ہے۔

طاہر خان کا کہنا ہے کہ دوسری طرف طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان کے خلاف جو دھمکی آمیز بیانات دیے ہیں وہ بھی صورتحال کو خراب کرتے ہیں اور اُس پہ مستزاد افغان قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا بھارت میں کھڑے ہو کر کشمیر کو بھارت کا حصہ کہنا ایک افسوسناک اور تشویش ناک بات ہے۔ تو بحیثتِ مجموعی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اس وقت شدید کشیدگی کا شکار ہیں۔

 طاہر خان نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ جلد دونوں ملکوں کے تعلقات کے درمیان بہتری آ سکتی ہے۔ کل 13 اکتوبر کو پاکستانی وفد نے وزیرِ دفاع کی سرکردگی میں کابل جانا تھا لیکن اطلاعات کے مطابق طالبان نے وفد کا استقبال کرنے سے اِنکار کر دیا۔ کچھ بھی ہو مذاکرات کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ ہے ہی نہیں اور نہ دونوں ملکوں کے اندر طویل جنگ لڑنے کی سکت ہے لیکن فی الحال جو ماحول ہے وہ مذاکرات کے لئے سازگار دکھائی نہیں دیتا۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان جھڑپیں: 200 سے زیادہ طالبان و دہشتگرد ہلاک، 23 پاکستانی جوان شہید، دہشتگردی کے درجنوں ٹھکانے تباہ

ان کے مطابق ایک راستہ ہے وہ یہ کہ ایسے رہنماء جیسا کہ مولانا فضل الرّحمٰن، آفتاب شیرپاؤ اور محمود خان اچکزئی وغیرہ، جن کو بارڈر کے دونوں طرف عزت و احترام حاصل ہے ان لوگوں پر مشتمعل ایک جرگہ بات چیت کے لیے افغانستان بھیجا جا سکتا ہے۔

افغانستان میں تمام فریقوں پر مشتمل ایک ہمہ جہتی حکومت کے قیام سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں طاہر خان نے کہا کہ پاکستان نے طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد یہی کہا تھا کہ افغانستان میں تمام فریقین پر مبنی ایک حکومت ہونی چاہیے لیکن بعد میں پاکستان نے عوامی طور پر ایسا کہنا چھوڑ دیا تاکہ طالبان حکومت ناراض نہ ہو۔

ان کے مطابق 30 ستمبر کو پاکستان میں طالبان مخالف افغان رہنماؤں کا ایک اجلاس ہوا جو اِس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان آہستہ آہستہ اُس مطالبے کی طرف آ رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ افغانستان میں بھی خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کے حوالے سے جو صورتحال ہے اُس سے وہاں افغانوں میں بھی ناراضی پائی جاتی ہے اور اب طالبان نے ٹیکسز بھی عائد کر دیے ہیں جو ماضی میں نہیں تھے تو افغان عوام بھی طالبان حکومت سے ناخوش ہیں۔

پاک افغان تعلقات میں بنیادی رکاوٹ ٹی ٹی پی ہے، آصف درانی

افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درّانی نے ایک پوڈ کاسٹ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان بارڈر پر فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا ہے اور ایک غیر یقینی صورتحال ہے۔اس صورتحال کی ذمہ داری ٹی ٹی پی ہے جو افغان طالبان کے نظریاتی بھائی ہیں اور افغان طالبان اُن کو دہشت گرد کاروائیوں سے روکنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں جبکہ ٹی ٹی پی کی ساری قیادت افغانستان میں ہے۔

یہ بھی پڑھیے: بھارت کبھی آپ کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا، حافظ نعیم الرحمان کا افغانستان کو مشورہ

انہوں نے کہا کہ افغان طالبان ایک طرف ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی سے اِنکار کرتے ہیں دوسری طرف پاکستان سے معاشی معاونت چاہتے تاکہ ٹی ٹی پی کو دوسری جگہ منقل کیا جا سکے۔ جبکہ بین الاقوامی اداروں خاص طور پر اقوامِ متحدہ کی رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ افغانستان میں نہ صرف ٹی ٹی پی بلکہ دیگر دہشتگرد گروہ بھی موجود ہیں۔

آصف درّرانی نے کہا کہ افغانستان کو تباہ کرنے والے لوگ اِس وقت مُلک سے باہر بیٹھے ہیں اور ایک پُر تعیّش زندگی گزار رہے ہیں۔ افغانستان کی تباہی کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں، اس کے ذمہ دار افغان خود ہیں جنہوں نے خود کو بارودی مواد بننے کے لیے استعمال ہونے دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

گوگل فوٹوز میں نئے مصنوعی ذہانت کے فیچرز متعارف

وزیراعظم کی طرح صدر بھی انکار کر سکتے تھے استثنیٰ نہیں چاہیے، رانا ثنا اللہ

افغان طالبان رجیم اور فتنہ الخوارج نفرت اور بربریت کے علم بردار، مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب

آن لائن شاپنگ: بھارتی اداکار اُپندر اور اُن کی اہلیہ بڑے سائبر فراڈ کا کیسے شکار ہوئے؟

امریکی تاریخ کا طویل ترین حکومتی شٹ ڈاؤن ختم، ٹرمپ نے بل پر دستخط کر دیے

ویڈیو

ورلڈ کلچر فیسٹیول میں فلسطین، امریکا اور فرانس سمیت کن ممالک کے مشہور فنکار شریک ہیں؟

بلاول بھٹو کی قومی اسمبلی میں گھن گرج، کس کے لیے کیا پیغام تھا؟

27 ویں ترمیم پر ووٹنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، بیرسٹر گوہر

کالم / تجزیہ

کیا عدلیہ کو بھی تاحیات استثنی حاصل ہے؟

تبدیل ہوتا سیکیورٹی ڈومین آئینی ترمیم کی وجہ؟

آنے والے زمانوں کے قائد ملت اسلامیہ