دوحہ میں قطر اور ترکی کی ثالثی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی معاہدہ طے پا گیا جس کا مقصد ایک دوسرے کے خلاف حملوں کا خاتمہ اور خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس پیشرفت پر قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں برادر ممالک نے ثالثی میں کلیدی کردار ادا کیا اور وہ معاہدے پر عملدرآمد کی نگرانی بھی جاری رکھیں گے۔
یہ بھی پڑھیے: افغانستان کو سبق سیکھا دیا ہے، مزید دہشتگردی برداشت نہیں ہوگی، رانا ثنا اللہ
وزیرِ دفاع نے بتایا کہ معاہدے کے بعد ایک فالو اپ اجلاس استنبول میں منعقد کیا جائے گا، جس میں معاہدے کے نفاذ اور پائیداری کے لیے عملی اقدامات اور تکنیکی طریقہ کار پر بات چیت ہوگی۔
خواجہ آصف کے مطابق پاکستان اور افغانستان نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ دہشت گردی کو دونوں ممالک کی سرزمین سے سختی سے کنٹرول اور ختم کیا جائے تاکہ دوبارہ اس کا امکان پیدا نہ ہو۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ معاہدہ سرحدی علاقوں میں امن بحال کرنے اور اسلام آباد اور کابل کے تعلقات بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے: پاک افغان معاہدہ: دہشتگردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ کہنے والوں کا ٹی ٹی پی کی حمایت ترک کرنے کا وعدہ
انہوں نے مزید کہا کہ افغان پناہ گزین جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود ہیں، انہیں پاکستان میں رہنے کی اجازت ہوگی، جبکہ بغیر دستاویزات والے افراد کو باقاعدہ طریقہ کار کے تحت واپس بھیجا جائے گا۔ افغان پناہ گزینوں کی واپسی اور آبادکاری دونوں ممالک کے درمیان طے شدہ سرکاری فریم ورک کے تحت جاری رہے گی۔
وزیرِ دفاع نے بتایا کہ جنگ بندی کے بعد سرحدی صورتحال معمول پر آ چکی ہے، تشدد میں نمایاں کمی آئی ہے اور کسی بھی دہشت گرد ٹھکانے کی موجودگی کی اطلاعات نہیں ہیں۔ البتہ انہوں نے کہا کہ مکمل اطمینان کا انحصار آئندہ ہفتوں میں معاہدے کے مؤثر نفاذ پر ہوگا۔














