ایک وقت تھا کہ سوشل میڈیا پر ڈاکٹر فرحان ورک پاکستان تحریک انصاف کی پہچان تھے۔ وہ پارٹی کے بیانیے کی ترویج کے لیے کئی کئی اکاؤنٹس سے دن رات ٹویٹس کرتے اور مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے مگر پھر وقت بدلا اور چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ یہی فرحان ورک پی ٹی آئی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنانے لگے۔
9مئی کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد پارٹی کے احتجاج اور فوجی تنصیبات اور رہائشوں پر حملے کے بعد فرحان ورک ٹویٹر پر اچانک متحرک ہوئے، اور پی ٹی آئی کارکنان کو پرتشدد احتجاج سے منع کرنے لگے۔
وی نیوز نے ان سے اس اچانک تبدیلی کی وجہ پوچھی کہ کہیں ’کسی‘ کے کہنے پر تو وہ پارٹی کے خلاف متحرک نہیں ہوئے؟
ان کا جواب تھا کہ “اگر ’کسی‘ نے رابطہ کیا ہوتا تو 15ماہ قبل ہی پارٹی اور فوج کے اختلافات تھے، اسی وقت متحرک ہو جاتا۔ میں 15 ماہ سوچتا رہا کہ ٹھیک ہے اس ملک میں فوج کی بھی غلطیاں ہیں، تحریک انصاف اگر احساس دلا رہی ہے تو ہو سکتا ہے انہیں احساس ہو جائے کہ سیاست میں مداخلت نہ کریں لیکن گزشتہ چند دنوں میں وہ واقعات ہوئے کہ انہوں نے ہمارے دلوں کو دہلا دیا، اب بھی خدا نخواستہ ہم کھل کر فوج کا دفاع نہیں کرتے تو ملک میں خانہ جنگی کے حالات ہو سکتے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ ’میں ٹوئیٹر پر 2014 سے متحرک تھا، میرا اس وقت بھی یہی موقف تھا کہ پاکستانی فوج پاکستان کی سلامتی کے لیے اہم ہے۔ ہم نے ہمیشہ پاکستان کے قومی مفاد کی بات کی ہے‘
فرحان ورک کا کہنا تھا کہ پچھلے 15ماہ میں لوگوں کو بتایا گیا کہ پاک فوج نہ ہوتی تو ملک سوئٹزرلینڈ ہوتا مگر یہ بتائیں کہ کیا عراق کے لوگوں کے اپنی فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد عراق سوئٹزلینڈ بن گیا؟ جب لیبیا میں لوگوں نے خود ہی اپنی حکومت پر حملہ کیا تو کیا وہ خوشحال ہو گئے؟ پاکستان میں بھی یہی حال ہو گا اگر ہم نے سمجھداری سے کام نہ کیا۔
تحریک انصاف کیوں چھوڑی؟
فرحان ورک کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی پارٹی کی حکومت میں ناقص کارکردگی اور قیادت کے رویے سے دلبرداشتہ ہوکرکچھ عرصہ قبل چھوڑ دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ آج سے 10ماہ قبل وہ اپنا اکاؤنٹ بحال ہونے کے بعد دوبارہ متحرک ہوئے، انہوں نے معافی مانگی تھی کہ اگر کسی کا میری باتوں سے دل دکھا ہو تو معاف کر دیں۔ لیکن پی ٹی آئی کی حمایت پر انہیں کوئی پچھتاوا نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب پی ٹی آئی کی حمایت کی تھی تو انہیں امید تھی کہ حکومت میں آکر نئی جماعت بہتر کارکردگی دکھائے گی۔’ہماری اس وقت نیت اچھی تھی مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا میں آہستہ آہستہ مایوس ہو گیا۔‘
“بہت سی ایسی اصلاحات کی ہم توقع کر رہے تھے مگر وہ نہیں ہوئیں۔ اس میں سرفہرست پولیس اصلاحات تھیں۔ آج بھی جو پولیس تحریک انصاف کے لوگوں کے ساتھ کر رہی ہے، عام شہریوں کے ساتھ جو سلوک کر رہی ہے، یہ سب کچھ نہ ہوتا اگر تحریک انصاف پولیس اصلاحات کرتی اور ان کو احساس دلاتی کہ پولیس عام شہریوں کے جان و مال کی محافظ ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ آج پارٹی کے لوگ فوج کے کردار پر تنقید کر رہے ہیں مگر ہم نے حکومت کے دوران فوج کے حوالے سے بھی کوئی اصلاحات نہیں دیکھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شیر شاہ سوری نے برصغیر میں اپنی صرف 5 سال کی حکمرانی میں جی ٹی روڈ بنا دی جو پاکستان سے بنگال تک جاتی تھی ۔ انہوں نے 5 سالوں میں برصغیر کا لینڈ ریونیو سسٹم بنایا، 5 سالوں میں کرنسی بنائی اور ٹیکس وصولی کا نظام بنا دیا۔‘ جو کرنے والے ہوتے ہیں وہ کر گزرتے ہیں، یہ الزامات نہیں لگاتے کہ ہم کچھ نہیں کر سکے تو فلاں کا قصور ہے ۔ آپ کو ذمہ داری لینا چاہیے۔ “
ڈاکٹر فرحان ورک کا کہنا تھا کہ عمران خان کی ناکامی کی کئی وجوہات تھیں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ نیت کی خرابی تھی مگر ان کا فوکس یہ تھا کہ سیاسی طور پر مضبوط تر ہونا ہے مگر ملک کے معاملات پر توجہ نہ ہو تو پھر ملک کے وہی حالات ہوتے ہیں جو آج ہیں۔
ڈاکٹر قدیر کا فیک اکاؤنٹ بنانے پر ان سے معافی مل گئی تھی
ڈاکٹر فرحان ورک سے پوچھا گیا کہ ان پر فیک اکاؤنٹس بنانے کا الزام لگتا رہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ٹوئیٹر کو جب 2010 میں استعمال کرنا شروع کیا تو وہ بچپنے کا دور تھا۔ ’اس عرصے کے دوران ایک (فیک)اکاؤنٹ (ممتاز ایٹمی سائنسدان) ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا بھی بنایا تھا بعد میں ڈاکٹر عبدالقدیر نے معاف بھی کر دیا تھا۔ ان کا ویڈیو پیغام بھی موجود ہے۔ اس کےبعد یہی کوشش کی کہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ خود کو بہتر کریں‘۔
فرحان ورک کا کہنا تھا کہ پہلے وہ لوگوں سے سخت زبان میں بھی بات کرتے تھے، گالی گلوچ بھی ہوتا تھا لیکن آہستہ آہستہ کوشش کی کہ دلیل کے ساتھ بات کریں۔
سوشل میڈیا فسادات کو فروغ دیتا ہے؟
فرحان ورک کا کہنا ہے کہ موجودہ سوشل میڈیا الگوریتھمز پر چلتا ہے۔ اس سسٹم میں اگر آپ سنسنی پھیلاتے ہیں تو ڈیجیٹل میڈیا کے سسٹمز آپ کے موقف کو پروان چڑھاتے ہیں۔
’اس کی سب سے بڑی مثال یہ حالیہ مظاہرے ہیں کہ اس میں آپ کو کسی بھی تحریک انصاف کے رہنما کا ایسا بیان ڈیجیٹل میڈیا پر نہیں ملے گا کہ حملہ کر دو مگر لوگ کر رہے تھے کیونکہ ڈیجیٹل میڈیا پر ان لوگوں کی بات زیادہ پھیل رہی تھیں جو ایسے پیغامات دے رہے تھے کہ ہمیں حملے کرنے چاہییں‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت جو پاکستان میں دماغوں کو تبدیل کیا جا رہا ہے یہ کوئی خاص شخص یا فرد نہیں۔ سان فرانسسکو میں موجود ٹویٹر، فیس بک اور یوٹیوب کے سرور کر رہے ہیں۔ ’یہ سرورز ہمارے لوگوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان تمام ڈیجیٹل میڈیا کمپنیوں سے بات کرے کیونکہ جب ایک ایلگوریتھم ایک خاص چیز کو فروغ دیتا ہے تو زیادہ سے زیادہ لوگ اسی پر بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں شہرت ملے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ بحران سے کچھ لوگوں نے ہزاروں ڈالر روزانہ کمائے۔’ جو شخص ایک خاص موقف کی حمایت کرکے پیسے کما رہا ہے وہ بیچارہ کیسے دوسرے موقف کو جگہ دے سکتا ہے۔ اس کی کوشش ہوگی کہ اس موقف کو زیادہ سے زیادہ فروغ دوں تاکہ زیادہ پیسے کما سکوں‘۔
“تو اگر ایک شخص یہ بولے گا کہ آج عمران خان کو گرفتار کیا جا رہا ہے تو دوسرا بولے گا آج کرفیو لگنے والا ہے، تیسرا بولے گا نہیں جی عمران خان کو قتل کیا جائے گا، چوتھا بولے گا نہیں جی ان کے سر پر گولی۔۔ تو یہ اس طرح کی سنسنی خیز باتیں کرکے ایلگوریتھم کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ ایلگوریتھم عام لوگوں کی طرف یہ مواد زیادہ سے زیادہ پھینکتا ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں ایسے حالات پیدا ہورہے ہیں۔
فرحان ورک کے مطابق پاکستان میں حالیہ حملوں کی ایک وجہ ٹک ٹاک مواد بھی تھا۔ سب سے زیادہ ویڈیو وائرل ٹک ٹاک کی ہو رہی ہیں۔’ بہت سے مظاہرین جب حملہ کرنے گئے تو انہوں نے وہاں سرکاری کیمرے توڑ دیے تاکہ ان کے چہرے نہ پہچانے جا سکیں لیکن اس کے ساتھ اپنے موبائل فون پکڑ کر یہ لوگ ٹک ٹاک بناتے رہے کہ شاید ہماری ویڈیو وائرل ہو جائے اور اسی لالچ میں کئی لوگ پکڑے بھی گئے‘۔