سندھ ہائیکورٹ میں کراچی چڑیا گھر سے مادہ ریچھ ’رانو‘ کی منتقلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے چڑیا گھر کی بدانتظامی، جانوروں کی حالتِ زار اور ناکارہ سہولیات پر برہمی کا اظہار کیا۔
سماعت جسٹس اقبال کلہوڑو اور جسٹس فیض شاہ پر مشتمل بینچ نے کی۔ عدالت کے روبرو کے ایم سی، محکمہ بلدیات اور محکمہ جنگلی حیات کے نمائندے پیش ہوئے۔
’رانو‘ اسلام آباد منتقل، درخواست غیر مؤثر ہو چکی: وکیل کے ایم سی
سماعت کے آغاز پر وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ مادہ ریچھ ’رانو‘ کو اسلام آباد منتقل کر دیا گیا ہے۔
کے ایم سی کے وکیل بیرسٹر اسد احمد نے مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ رانو کی منتقلی ہو چکی ہے، اس لیے درخواست کا مقصد پورا ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے ریچھ ’رانو‘ کی حالت تشویشناک، مشاہداتی رپورٹ میں مبینہ غفلت کا انکشاف
عدالت نے اس موقع پر کہا کہ اگر مزید کسی پہلو پر کارروائی درکار ہے تو نئی درخواست دائر کی جائے۔
عدالت کا چڑیا گھر کی حالت پر اظہارِ افسوس
کنزرویٹر جنگلی حیات جاوید مہر نے عدالت کو بتایا کہ ’رانو‘ کا جسمانی و ذہنی معائنہ کیا گیا تھا، تاہم دیگر جانوروں کے لیے وقت درکار ہے۔
جسٹس اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے کہ ’اس طرح کا چڑیا گھر نہیں چل سکتا۔ چھوٹے چھوٹے پنجروں میں جانوروں کا تماشا بند کریں، اور کراچی چڑیا گھر کو قدرتی پارک میں تبدیل کریں۔‘
عدالت نے کہا کہ جانوروں کی فلاح اولین ترجیح ہونی چاہیے، نہ کہ صرف ٹکٹوں کے ذریعے آمدنی حاصل کرنا۔
ویٹنری سہولیات کی کمی پر برہمی
درخواست گزار کے وکیل نے نشاندہی کی کہ چڑیا گھر میں ویٹنری ڈاکٹر کا کمرہ اسٹور کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، ایکسرے مشین خراب ہے، اور آپریشن تھیٹر ناقابلِ استعمال ہے۔
انہوں نے کہا کہ جانوروں کو بے ہوش کرنے اور خون کے نمونے لینے کا کوئی نظام موجود نہیں، جبکہ بعض پنجروں میں پانی تک دستیاب نہیں۔
جسٹس اقبال کلہوڑو نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا: ’آپ لوگوں کو خدا کا خوف نہیں ہے؟ اگر خوفِ خدا ہوتا تو یہ پٹیشن دائر نہ ہوتی۔ جانوروں پر رحم کریں، یہ سب کرپشن اور بدانتظامی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں:ماں مار کر بچے لے جانا اور دیگر عوامل ریچھوں کو پاکستان سے مٹا رہے ہیں
عدالت نے ہدایت کی کہ تمام خراب مشینیں فوری طور پر درست یا نئی خریدی جائیں، اور اگر ویٹنری ڈاکٹر دستیاب نہیں تو خدمات آؤٹ سورس کی جائیں۔
چڑیا گھروں کو قدرتی پارک میں تبدیل کرنے کی ہدایت
عدالت نے قرار دیا کہ کراچی اور حیدرآباد کے چڑیا گھروں کو بتدریج ختم کر کے قدرتی ماحول والے نیشنل پارکس میں تبدیل کیا جائے۔
مزید کہا کہ چڑیا گھر میں ویک اینڈ کے علاوہ عوامی تماشا بند رکھا جائے تاکہ جانوروں کو سکون میسر ہو۔
تحقیقی کمیٹی تشکیل
عدالت نے میونسپل کمشنر، سیکریٹری بلدیات، کنزرویٹر جنگلی حیات، سینیئر ڈائریکٹر زو اور ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا۔
درخواست گزار کو بھی ہدایت کی گئی کہ وہ ماہرین کے نام عدالت میں جمع کرائیں۔
کمیٹی ایک ماہ میں اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرائے گی، جبکہ دو ہفتے بعد پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے سماعت دوبارہ مقرر کر دی گئی۔














