پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (PIA) اس وقت ایک شدید انتظامی اور پیشہ ورانہ بحران سے گزر رہی ہے۔ قومی ایئرلائن کے انجینیئرز اور مینجمنٹ کے درمیان تنازعہ نہ صرف پروازوں کی شیڈولنگ کو متاثر کر رہا ہے بلکہ ادارے کے اندر اعتماد کے بحران کو بھی نمایاں کر رہا ہے۔
انجینیئرز ایسوسی ایشن کے صدر اور سیکریٹری جنرل کی برطرفی کے بعد یہ تنازع قانونی سطح پر بھی منتقل ہو گیا ہے اور دونوں برطرف عہدیداران نے تمام دستاویزی شواہد کے ساتھ عدالت جانے کا اعلان کیا ہے۔
انجینیئرز کا کہنا ہے کہ وہ کسی ہڑتال میں شریک نہیں، بلکہ صرف اُن طیاروں کو کلیئر کر رہے ہیں جو مکمل تکنیکی معیار پر پورے اترتے ہیں۔ ان کے مطابق گزشتہ 8 برس سے تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا، عملہ کم ہے، اور بعض اوقات انتظامیہ دباؤ ڈالتی ہے کہ مخصوص پروازوں کو مکمل سیفٹی منظوری کے بغیر روانہ کیا جائے۔
انجینیئرز کا الزام ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی (PCAA) نے پی آئی اے کو ایسے آپریشنل ویورز دیے ہیں جو عالمی سیفٹی اصولوں سے انحراف کے مترادف ہیں۔ تاہم CAA نے تمام الزامات سختی سے مسترد کر دیے ہیں۔
دوسری جانب پی آئی اے مینجمنٹ کا مؤقف ہے کہ انجینیئرز کلیئرنس سرٹیفیکیٹ روک کر نجکاری کے عمل میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں، اور یہ اقدام عملی طور پر ’غیر قانونی ہڑتال‘ کے برابر ہے۔ انتظامیہ کے مطابق 6 پروازیں منسوخ اور 39 تاخیر کا شکار ہو چکی ہیں۔
ادارے نے بیرونِ ملک سے انجینیئرز بلانے کی کوشش بھی کی، مگر غیر مجاز عملے کی منظوری نہ ہونے کے باعث یہ منصوبہ قابلِ عمل ثابت نہیں ہو سکا۔
یہ تنازعہ اب قانونی رخ بھی اختیار کر رہا ہے کیونکہ حکومت، Pakistan Essential Services (Maintenance) Act 1952 کے تحت انجینیئرز کو ’ضروری سروس‘ قرار دینے پر غور کر رہی ہے۔ اس قانون کے تحت ہڑتال یا کام روکنا جرم تصور ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اگر حکومت نے یہ قدم اٹھایا تو انجینیئرز کو عدالت میں اپنے اقدامات کا قانونی دفاع کرنا ہوگا۔
انجینیئرز ایسوسی ایشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایک غیرجانبدار اور آزاد کمیشن سپریم کورٹ کے کسی سینئر جج کی نگرانی میں تشکیل دیا جائے تاکہ دونوں جانب کے الزامات اور سیفٹی پالیسیوں کا شفاف جائزہ لیا جا سکے۔ ایسوسی ایشن کے مطابق موجودہ انتظامیہ زیادہ تر کنٹریکٹ پر تعینات ہے، اس لیے غیرجانبدار انکوائری کا ماحول ادارے کے اندر ممکن نہیں۔
ایوی ایشن ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر انجینیئرز کے خدشات درست ثابت ہوئے تو اس کا براہِ راست اثر پاکستان کی فضائی سلامتی اور عالمی ساکھ پر پڑ سکتا ہے، جہاں پہلے ہی ICAO، FAA اور EASA جیسے ادارے پاکستانی ایوی ایشن کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔
PIA کا موجودہ بحران صرف تنخواہوں یا انتظامی فیصلوں کا مسئلہ نہیں بلکہ گورننس، پالیسی شفافیت، فنی عملے کی شمولیت اور ادارہ جاتی کمزوری کا مجموعہ ہے۔ انجینیئرز سیفٹی کو اولین ترجیح قرار دیتے ہیں، جبکہ مینجمنٹ کا فوکس نجکاری اور آپریشنز کو برقرار رکھنے پر ہے۔ یہی اختلاف اس تنازعے کی اصل جڑ ہے۔
صورتِ حال کے حل کے لیے ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ حکومت ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن قائم کرے، CAA کی نگرانی کے عمل کو مضبوط بنایا جائے، انجینیئرز کے جائز مطالبات پر سنجیدگی سے پیش رفت کی جائے، اور سلامتی کے معاملے پر کسی بھی سطح پر سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ Essential Services Act کا استعمال صرف ہنگامی حالات تک محدود رکھا جائے تاکہ تکنیکی عملے کی حقیقی شکایات کو دبایا نہ جا سکے۔
یہ بحران محض ایک احتجاج نہیں بلکہ ایک پیشہ ورانہ وارننگ ہے۔ اگر حکومت، انتظامیہ اور انجینیئرز نے بروقت اور شفاف اقدامات نہ کیے تو پاکستان کو بین الاقوامی فضائی پابندیوں، مسافروں کے اعتماد میں کمی، اور عالمی ایوی ایشن اداروں کی مداخلت جیسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ہر پرواز کی بنیاد ایک انجینیئر کے دستخط ہوتے ہیں، اور انہی دستخطوں پر پاکستان کی فضائی سلامتی کا انحصار ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔














