ترکیہ میں 14 مئی کو ہوئے الیکشن کو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا الیکشن قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس الیکشن میں ٹرن آوٹ88.2 فیصد رہا،جو ترکیہ میں انتخابات کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ٹرن آوٹ ہے۔ مگر اس الیکشن کے نتائج چونکا دینے کے لیے کافی ہیں ۔
ہوا کچھ یوں ہے کہ الیکشن میں جب 21 فیصد ووٹ کاؤنٹ ہوچکے تھے تب اردگان 55 فیصد ووٹوں کے ساتھ لیڈ کر رہا تھا۔ مگر یہ لیڈ جلد ہی کم ہوتی چلی گئی ۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ترکیہ کے دیہی علاقوں میں ووٹ کم ہے بہ نسبت اس کی شہری آبادی کے۔جس کی وجہ سے دیہی آبادی میں کم ووٹ پڑتا ہے تو وہ کاؤنٹ بھی جلدی ہو جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں چونکہ اردگان کی حمایت زیادہ ہے اس لیے نتائج کے شروع میں اسے لیڈ حاصل تھی۔ لیکن جیسے جیسے ترکیہ کی شہری آبادی کے رزلٹ آنا شروع ہوئے تو اس کی لیڈ کم ہوتی چلی گئی ۔
الیکشن کے اختتام پر ترک صدر طیب اردگان 49.42 فیصد ووٹ لے کر پہلے نمبر پر آئے لیکن 50 فیصدکی لائن عبور نہ کرنے کی وجہ سے دو ہفتے بعد وہ دوبارہ الیکشن میں کمال اوغلو کا مقابلہ کرینگے جس نے 44.95 فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں۔
رن آف الیکشن سسٹم کیا ہے
ترکیہ کے نئے انتخابی نظام کے تحت یہ پہلا رن آف الیکشن ہوگا۔ ترکیہ جولائی 2018 میں پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام میں تبدیل ہوا۔گو کہ ترکیہ میں 1989 ، 1993، 2000 اور 2007 کے صدارتی انتخابات تیسرے مرحلے میں چلے گئے تھے ، لیکن ووٹنگ سسٹم اور سیاسی نظام دونوں موجود انتخابات سے مختلف تھے۔ ان انتخابات میں صدور کا انتخاب پارلیمنٹیرینز کے ذریعے کیا گیا تھا، جن کی حیثیت کسی حقیقی طاقت کے بغیر خالصتاً علامتی تھی۔
رن آف الیکشن اس وقت ہوتا ہے جب کوئی امیدوار پہلے راؤنڈ میں واضح اکثریت حاصل نہیں کر پاتا ہے ۔ جس کا تعین عام طور پر ملک کے آئین کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ جس طرح ترکیہ میں 50 فیصد ووٹ حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ الیکشن کے پہلے مرحلے میں جن دو امیدواروں نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتے ہیں صرف وہی دو امیدوار الیکشن کے دوسرےمرحلے میں ایک دوسرے کا سامنا کرتے ہیں۔
کنگ میکر سنان اوان
اس الیکشن میں 5 فیصد ووٹ لینے والےسنان اوان کو کنگ میکر کہا جا رہا ہے ۔ گو کہ وہ تیسرے نمبر پر آئے ہیں مگر ترکیہ میں میں سب کی زبان پر ان کا نام ہے ۔سنان اوان اے ٹی اے الائنس کی حمایت یافتہ قوم پرست ارہنما ہیں ۔ 28 مئی کو صدر اردگان اور حزب اختلاف کے رہنما کلیک دار اوغلو کو دوسرے راؤنڈ میں 50 فیصد کا ہندسہ عبور کرنے کے لیے اوان کی حمایت چاہیے ۔
الجزیرہ کو ایک انٹرویو میں اوان نے کہا کہ اس وقت میں ایسا کچھ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں کس امیدوار کی حمایت کروں گا ، مگر جو لوگ خود کو دہشت گردی سے دور نہیں کرتے وہ ہمارے پاس نہ آئیں۔یاد رہے کمال قلیچ کردوں کی حمایت کرتے ہیں ، جبکہ اوان کرد باغیوں کو دہشت گرد کہتا ہے ۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہو اکہ وہ رن آف میں کمال قلیچ کی حمایت نہیں کرے گا۔ جب کہ اوان ایک قوم پرست اور رجعت پسند ذہینت کا حامل سیاستدا ن ہے اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ وہ رن آف میں طیب اردگان کی حمایت کرے گا۔
طیب اردگان اور اس کی مشکلات۔۔۔
اس الیکشن کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ صدر رجب طیب اردگان، جنہوں نے 20 سال تک ملک کی قیادت کی، ووٹرز سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ انہیں مزید پانچ سال کے لیے صدر کے عہدے پر رہنے دیں۔مہنگائی،بے روزگاری اور زلزلہ کی تباہی کے بعد بحالی میں ناکامی ان کے طویل دور حکومت کو ختم کرنے کے لیے کافی ہیں ، لیکن زیادہ تر مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ اردگان کی مقبولیت اس وقت بھی بہت زیادہ ہے۔ اردگان کے مقابل کمال قلیچ داراوغلو ہیں ، جسے اپوزیشن کی چھ جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔
مہنگائی اور فروری کے مہلک زلزلے کے اثرات
یہ انتخابات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب ترکیہ میں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ جبکہ حکومت فروری کے مہلک زلزلوں سے ہونے والے بے گھر لوگوں کی تعمیر نو کے لیے دن رات کوششوں میں مصروف ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ترکیہ ،روس اور یوکرین جنگ میں اناج کی عالمی سپلائی کو برقرا رکھنے کے لیے کافی کوششیں کر رہا ہے۔ مگر الیکشن کے نتائج حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ترکیہ کے جن صوبوں میں زلزلہ کی وجہ سے تباہی ہوئی ہے وہاں طیب اردگان کو ووٹ کم پڑے ہیں۔
طیب اردگان کے امریکا سے تعلقات
امریکا اور اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کی وجہ سے اردگان کو حالیہ الیکشن میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 2016 میں جب اردگان کے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے تو اس دوران فوج کی مدد سے اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش بھی کی گئی تھی ۔
ترکیہ کے وزیر داخلہ نے ایک انٹرویو میں امریکا پر الزام لگایا تھا کہ 2016 کی ناکام بغاوت کے پیچھے امریکا کا ہاتھ ہے. ایسے بیرونی عوامل بھی شامل ہیں جنہوں نے ایک رہنما کے طور پر اردگان کی لمبی عمر میں اہم کردار ادا کیا ہے ،جن میں سب سے اوپر مغربی ممالک کی حمایت ہے۔ ترکیہ کے اسٹریٹجک مقام اور نیٹو میں اس کی رکنیت نے اسے امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کے لیے ایک اہم اتحادی بنا دیا تھا، ۔ لیکن ترک حکومت نے یورپ میں پناہ لینے والے کرد عسکریت پسندوں کے مسائل پر نیٹو کے ساتھ تعلقات کو مشکل بنا دیا ہے ۔
طیب اردگان کی مذہبی و رجعت پسند پالیسی اور مغرب
اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے قدامت پسند اور مذہبی رہنماؤں کی حمایت سے کئی الیکشن جیتے، مگر اس بار حالات کچھ مختلف ہیں۔۔ اردگان کی مذہبی اور رجعت پسندپالیسیوں کی وجہ سے اب وہ مغرب کے لیے اتنا قابل قبول رہنما نہیں رہا۔ دوسری وجہ اردگان کی روس کے ساتھ قریب روابط ہیں جو انہیں مغرب میں غیر مقبول بناتے ہیں۔
جس کے مقابلے میں امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی خواہش ہے کہ کمال قلیچ دار اوغلو کو اقتدار میں لایا جائے ۔ کیونکہ امریکا چاہتا ہے کہ کسی طرح ترکیہ کو روس سے دور کیا جائے۔ گو کہ اردگان یہ الیکشن جیت جائے گا لیکن جیت کے بعد اردگان کے لیے ترکیہ پر حکومت کرنا اتنا آسان نہیں رہے گا جتنا ماضی میں تھا۔ اردگان کے خلاف امریکی حمایت سے تحاریک کا آغاز بھی ہوسکتا ہےمگر اس کا ماضی دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایسی کسی بھی تحریک کے خلاف مزاحمت کرے گا۔ اس لیے وہ ایسی تحریک کو سختی سے کچل دے گا۔
اردگان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزام
ایک اور وجہ جس نے اردگان کو لمبے عرصہ تک اقتدار میں رہنے کے لیے مدد کی ہے وہ ہے ان کی سیاسی طاقت کا استحکام ہے ۔اپنے عہدے کے دوران، انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کو کمزور کرنے، آزادی صحافت کو محدود کرنے، عدلیہ اور فوج جیسے اہم اداروں پراپنا کنٹرول مضبوط کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔
مجموعی طور پر، اردگان کی انتخابات جیتنے، طاقت کو مستحکم کرنے، اور اہم اتحادیوں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کی صلاحیت نے ترکیہ کے رہنما کے طور پر ان کے طویل دور میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم ان کی قیادت کا انداز متنازعہ رہا ہے، ناقدین نے ان پر آمریت، بدعنوانی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا ہے۔مگر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اردگان اب بھی ترکیہ کے مقبول رہنما ہیں، اور انہوں نے اپنی صدارت میں اقتدار کو مضبوط کیا ہے، لیکن ترک عوام اب تبدیلی چاہتی ہے ۔ انسانی حقوق کے حامیوں نے سرکاری ملازمین، صحافیوں، کارکنوں، ماہرین تعلیم اور دیگر شخصیات کی وسیع پیمانے پر گرفتاریوں کی وجہ سے اردگان کا ساتھ دینے سے انکار کیا ہے۔
کمال قلیچ دار اوغلو سیکولر ترکیہ کا حامی ہے
کمال قلیچ دار اوغلو 74 برس ایک سابق اکاؤنٹنٹ ہے جو اپنے کارکنوں کے لیے ایک صاف ستھرے سیاست دان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ کمال قلیچ دار اوغلو سیکولر اقدار کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ ترکیہ کی مرکزی سیکولر اپوزیشن پارٹی ریپبلکن پیپلز پارٹی یا CHP کی قیادت کر رہے ہیں۔1990 کی دہائی میں، انہوں نے وزارت خزانہ میں کام کیا اور بعد میں سماجی تحفظ کے ادارے میں کام کیا ۔ ان کے کیریئر میں قابل فخر بات یہ ہے کہ وہ 2002 میں پارلیمنٹ کا رکن بننے سے پہلے ایک ‘بیورو کریٹ آف دی ایئر’ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
ٹیبل آف سکس یا نیشن الائنس
کمال قلیچ دار اوغلو نہ صرف اپنی CHP پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں بلکہ وہ نصف درجن سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے متفقہ امیدوار بھی ہیں جسے ٹیبل آف سکس یا نیشن الائنس کہا جاتا ہے۔ اس اتحاد میں ترک سیاست کے بائیں، مرکز اور دائیں بازو کی جماعتیں شامل ہیں اور بہت سے معاملات پر متفق نہیں ہیں۔لیکن انہیں ایک چیز پر مشترک بنیاد مل گئی ہے کہ صدر کے طور پر ووہ اردگان کو نہیں دیکھنا چاہتے۔
اسی اتحاد کی وجہ سے کمال قلیچ دار اوغلو الیکشن میں 44 فیصد تک ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ استنبول میں ایک تھنک ٹینک، سنٹر فار اکنامکس اینڈ فارن پالیسی اسٹڈیز کے چیئرمین سینان اولگن کے مطابق، ان جماعتوں کا اکٹھا ہونا اور کمال قلیچ دار اوغلو میں ایک ہی امیدوار سامنے لانا ترکیہ کی سیاسی تاریخ کا ایک قابلِ ذکر واقعہ ہے۔جبکہ 69 سالہ اردگان ایک پراعتماد مقرر اور قابل فخر مذہبی مسلمان ہیں جن کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی یا اے کے پی کی جڑیں سیاسی اسلام میں پیوست ہیں۔
کمال قلیچ دار اوغلو کی مغرب نواز پالیسی
ترکیہ کے حزب اختلاف کے رہنما کمال قلیچ دار اوغلو نے روس پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر روس 15 مئی کے بعد ہماری دوستی چاہتا ہے تو ترکیہ کے معاملات میں مداخلت ختم کرنی پڑے گی ۔ کمال قلیچ کے خدشات اپنی جگہ درست ہیں مگر اس کا یہ بیان اس کی مغرب نواز ذہنیت کی عکاسی کر رہا ہے۔ اس بیان کے جواب میں طیب اردگان نے کہا میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ روس کے ساتھ ہمارے تعلقات واشنگٹن کے ساتھ تعلقات سے کم اہم نہیں ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ ترکیہ کے الیکشن کو عالمی سطح پر روس اور امریکا کے مفاد کی جنگ کے طور پر دیکھا جا رہا جبکہ ترکیہ کے اندر اس کی اپنی عوام اس الیکشن کو اسلام اور سیکولرازم کی جنگ کے طور پر دیکھ رہی ہے ۔ حقیقیت کچھ بھی ہو مگر ترکیہ کی عوام کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مفاد بھی اس الیکشن سے وابستہ ہیں۔ اردگان کی کامیابی یا ناکامی ہماری داخلہ و خارجہ پالیسی کو ضرور متاثر کرے گی۔ جس کے لیے ہمیں ابھی سے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔