بنگلہ دیش کی عدالت نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں سزائے موت سنا دی۔ جس سے تاریخ کا فیصلہ سامنے آگیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق شیخ حسینہ واجد کی سزا سے 1971 سے آج تک معصوموں کے خون کا انصاف بالآخر ہوگیا، اور بنگلہ دیش بھارتی جبر اور اثرورسوخ سے حقیقی آزادی کی طرف بڑھ گیا۔
مزید پڑھیں: انسانیت کیخلاف جرائم: بنگلہ دیشی عدالت نے حسینہ واجد کو سزائے موت سنا دی
2024 میں میں طلبہ کی شروع کی گئی قانونی جدوجہد کا فیصلہ اب عدالت کے تاریخی فیصلے کی صورت میں سامنے آگیا ہے۔ یہ سزائے موت شیخ حسینہ واجد کو نہیں بلکہ بھارت کی بالادستی کو سنائی گئی ہے۔
بھارت بنگلہ دیش کے عوام کے جمہوری فیصلے کا احترام کرے اور حسینہ واجد کو واپس کرے۔ دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت کو بنگلہ دیش کی عوامی آواز سننی ہوگی۔
بھارت اُس شیخ حسینہ واجد کا میزبان ہے جسے ڈھاکا ٹربیونل نے 2024 کے طلبہ کریک ڈاؤن میں انسانیت کے خلاف جرائم پر سزائے موت سنا دی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق 2024 کی کارروائی میں 1400 تک افراد مارے گئے۔
بھارت بنگلہ دیش 2013 کے مجرموں کے تبادلے کے معاہدے میں سنگین جرائم اور دہشتگردی کے معاملات میں باہمی تعاون کی شق واضح موجود ہے۔
دونوں ممالک نے طے کیا تھا کہ سزائے موت یا طویل قید والے جرائم میں ایک دوسرے کی مدد کی جائے گی۔ بنگلہ دیش نے بھارت کے کہنے پر اعلیٰ پروفائل مجرم یو ایل ایف اے رہنما انوپ چیتیا کو بغیر تردد حوالے کیا۔
بھارت خود برطانیہ سے وجے مالیا، اور دیگر کی واپسی کے لیے رول آف لا اور بین الاقوامی تعاون کا مطالبہ کرتا ہے۔ امریکا سے تہور رانا کی حوالگی پر بھارت جشن مناتا رہا۔
سوال یہ ہے کہ جو قانون باقی سب کے لیے موجود ہے تو پھر شیخ حسینہ جیسے مجرم کو پناہ دینے کا جواز کیا ہے؟
بے گناہ طلبہ پر مہلک طاقت کے استعمال کی ذمہ دار مجرم کی حفاظت بھارت کے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے تمام دعوؤں کے برعکس ہے۔
مزید پڑھیں: آمرانہ حکمرانی سے سزائے موت تک، شیخ حسینہ کا سیاسی سفر کیسا رہا؟
متاثرہ خاندانوں کے انصاف، سچ اور انسانی حقوق کے تقاضے دہراتے ہیں کہ نئی دہلی کو ڈھاکا کے مطالبات سنجیدگی سے سننے ہوں گے۔
بھارت اپنے ہی تیار کردہ قانونی اور اخلاقی اصولوں سے پیچھے کیوں ہٹ رہا ہے؟ لگتا ہے کہ بھارتی جمہوریت کے دعوے کھوکھلے ثابت ہو چکے ہیں۔













