سنہ 2021 میں افغان طالبان کی کابل واپسی کے بعد گزشتہ 4 برسوں میں پاک افغان تجارت کا مجموعی حجم ایک ارب 48 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر ایک ارب 99 کروڑ ڈالر تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس دوران پاکستان کی افغانستان کو ایکسپورٹ زیادہ رہی اور افغانستان کی پاکستان کو ایکسپورٹ نسبتاً کم رہی۔ باہمی تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں 196 ملین ڈالر سے بڑھ کر 574 ملین ڈالر تک رہا ہے۔
پاکستان کے حق میں تجارتی توازن کی کمترین سطح سنہ 2022 میں نوٹ کی گئی۔ اس سال پاکستانی سر پلس صرف 3 کروڑ 10 لاکھ ڈالر رہ گیا تھا اس سال پاکستان نے افغانستان سے بڑی مقدار میں کوئلہ منگوایا تھا تو افغانستان کا خسارہ بہت کم رہ گیا تھا۔
پاکستان سے افغانستان کو سب سے زیادہ چاول برآمد کیے جاتے ہیں جن کی مالیت 20 سے 40 کروڑ ڈالر سالانہ ہے، اس کے بعد ادویات 10 سے 13 کروڑ ڈالر، 5 سے 6 کروڑ ڈالر کا سیمنٹ، تقریباً 7 کروڑ ڈالر کی سبزیاں، خصوصاً آلو، اور 5 سے 8 کروڑ ڈالر مالیت کی دیگر فوڈ آئٹمز افغانستان بھیجی جاتی ہیں۔
افغانستان سے پاکستان کو 10 سے 20 کروڑ ڈالر کا کوئلہ، 12 سے 13 کروڑ ڈالر کی کاٹن، 5 سے 6 کروڑ ڈالر کے انگور، تقریباً 4 کروڑ ڈالر کے ٹماٹر، اور 4 سے 7 کروڑ ڈالر مالیت کا پیاز درآمد کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تبدیل ہوتا سیکیورٹی ڈومین آئینی ترمیم کی وجہ؟
ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے بھی پاکستان افغانستان کے لیے سب سے بڑا راستہ رہا ہے، طالبان کے دور میں 2022 میں افغانستان نے پاکستان کے راستے 7 ارب ڈالر مالیت کا سامان منگوایا جو اگلے سال کم ہو کر 3 ارب ڈالر اور بعد میں مزید کم ہوکر کر 1 ارب 70 کروڑ ڈالر تک رہ گیا لیکن سنہ 2025 میں اس ٹرانزٹ تجارت میں دوبارہ 78 فیصد اضافہ تک دیکھنے میں آیا ۔ باڈر کی بندش سے یہ دوبارہ گر کر اب ایک ارب ڈالر تک رہ سکتا ہے ۔
افغان نائب وزیراعظم اور وزیر برائے اقتصادیات ملا عبدالغنی برادر نے حال ہی میں افغان تاجروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستان سے درآمدات اور برآمدات بند کرنے کی تیاری کریں اور آئندہ 3 ماہ کے اندر متبادل مارکیٹوں کی تلاش مکمل کریں۔
افغانستان کے لیے ایکسپورٹ کی سب سے بڑی مارکیٹ پاکستان ہی ہے۔ قندھار انتظامیہ نے تاجروں کو 3 ماہ کے اندر پاکستانی اشیا مارکیٹوں سے ہٹانے کا نوٹس دیا ہے۔ نوٹس دینے کے ایک ہفتے بعد ہی مارکیٹ میں اس حوالے سے سختی شروع کر دی گئی ہے۔
ملا برادر کے اعلان سے صرف پاک افغان تجارت ہی متاثر نہیں ہوگی بلکہ وسطی ایشیا کے ملکوں تک بھی اس کے اثرات ہوں گے کیونکہ پاکستان کے تاجر افغانستان کے راستے ہی وسطی ایشیا تک سامان پہنچاتے ہیں، روزانہ 600 سے 1000 کے قریب ٹرک پاکستان سے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں جن میں سے اکثر کی منزل زیادہ تر افغانستان سے آگے وسطی ایشیا کے ممالک ہوتے ہیں۔
افغان طالبان ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کو پاکستان کے متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں جہاں بھارت کو حال ہی میں امریکا نے 6 ماہ کے لیے پابندیوں سے استثنیٰ دیا ہے۔ فروری 2024 سے افغانستان اس پورٹ میں 35 ملین ڈالر کی محدود سرمایہ کاری کا اعلان بھی کر چکا ہے۔
افغانستان کی وزارت تجارت کے ترجمان اخوندزادہ عبدالسلام جواد نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ بارڈر بند ہونے کی وجہ سے 8 ہزار کنٹینر پھنسے ہوئے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔ جواد کا کہنا تھا کہ چاہ بہار سے سامان کی ترسیل میں پہلے دو ماہ لگتے تھے، اب یہ وقت کم ہو کر سترہ دن رہ گیا ہے۔
مزید پڑھیے: افغانستان میں پختون برتری کا خاتمہ ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا؟
سال 2024 میں افغانستان نے چاہ بہار کے ذریعے 127 ملین ڈالر کی ایکسپورٹ کی ہے۔ جواد کا یہ بھی کہنا تھا کہ چاہ بہار ہمارے لیے کسی (پاکستان) کا متبادل نہیں، بہت سے روٹس میں ایک روٹ ہے۔
پاکستان کے ساتھ تجارت کھلی رکھنے کے لیے بات چیت جاری ہے اور یہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
پاکستان افغانستان جس سمت چل پڑے ہیں۔ اس کا نقصان صرف ان 2 ملکوں تک محدود نہیں رہے گا۔ سنٹرل ایشیا اور جنوبی ایشیا میں کنیکٹیوٹی کے پراجیکٹ متاثر ہونگے۔ روسی انٹرسٹ کو نقصان پہنچے گا۔ ایران کے پاکستان سے بہتر ہوتے تعلقات کے لیے بھی نئے چیلنج سامنے آئیں گے۔ قطر اور ترکی کی ثالثی کوشش میں ناکامی کے بعد اب ایران اور روس دونوں نے پاکستان افغانستان کو ثالثی کی پیشکش کر دی ہے۔
اس پیشکش کا ایک دلچسپ اینگل یہ بھی ہے کہ ایران اور روس دونوں کے انڈیا کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ انڈین وزیر خارجہ جے شنکر شنگھائی ہیڈ آف گورنمنٹ اجلاس کے لیے ماسکو پہنچے ہیں۔ ایران اور روس دونوں ہی اس خطے کو دوبارہ اوپر نیچے ہونے کو اپنے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اس کے لیے یقینی طور پر دونوں ملک انڈیا سے بھی بات کرنے کی اچھی پوزیشن میں ہیں۔
مزید پڑھیں: پاک افغان مذاکرات کی ناکامی، افغان طالبان کو فیل کرے گی
ہیڈ آف گورنمنٹ اجلاس میں جے شنکر نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم اپنے بنیادی 3 مقاصد کی طرف لوٹے۔ یہ 3 مقاصد شدت پسندی ، دہشتگردی اور علیحدگی پسندی کے خلاف ایک علاقائی اتحاد تھا جس کا نام شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا۔
جے شنکر کی اس بات پر ہی اگر رک کر سوچیں تو امید باندھنی بنتی ہے۔ ہمارے بدقسمت خطے میں امیدیں ٹوٹنے کے لیے ابھرتی اور تحلیل ہوتی ہیں۔ پھر بھی کچھ وقت کے لیے اچھا سوچ لیتے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













