بھارت میں مودی حکومت کی جانب سے مسلمانوں اور کشمیری قیادت کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ تازہ واردات میں حریت پسند رہنما اور سابق جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF) کے سربراہ یاسین ملک کو ایئر فورس اہلکاروں کے قتل کیس میں مرکزی فائرر کے طور پر عدالت میں نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:13 سالہ رضیہ سلطان کی اپنے والد یاسین ملک کو بھارتی مظالم سے بچانے کے لیے عالمی برادری سے اپیل
یہ کیس 1990 کے سانحے سے متعلق ہے، جس میں 4 ایئر فورس اہلکار ہلاک اور 22 زخمی ہوئے تھے۔

جموں کی TADA عدالت میں 2 اہم گواہوں نے یاسین ملک کو مرکزی فائرر کے طور پر شناخت کیا، جبکہ دیگر ملزمان شوکت بکشی، ننّا جی اور جاوید احمد بھی سانحے میں ملوث قرار دیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں:یومِ قراردادِ الحاق پاکستان: یاسین ملک کی اہلیہ مشال ملک کا کشمیریوں کے نام جذباتی پیغام
ایک گواہ نے بتایا کہ ننّا جی نے ان کی طرف AK رائفل سے فائر کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ بچ گئے۔ گواہوں میں سے ایک نے عدالت میں یاسین ملک کو پہچانتے ہوئے کہا کہ آپ کو مرکزی فائرر کے طور پر پہچاننے میں کوئی مشکل محسوس نہیں کر رہا۔

یاسین ملک، جو اس وقت دہلی کی تیہاڑ جیل میں دہشتگردی فنڈنگ کیس میں عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں، ویڈیو کانفرنس کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے گواہوں کے کراس ایکزامینیشن کی اجازت دی۔ CBI کے اسپیشل پراسیکیوٹر ایس کے بھٹ سماعت کے دوران موجود تھے۔ اگلی سماعت 29 نومبر کو طے ہے۔
iasin
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی محض قانونی معاملے کے بجائے بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیری حریت پسند قیادت کو نشانہ بنانے کی ایک انتقامی کارروائی معلوم ہوتی ہے۔
کیس کی تیز رفتار سماعت اور 35 سال پرانے سانحے کو دوبارہ سامنے لانا مقامی مسلمانوں اور کشمیری قیادت کے لیے سیاسی دباؤ کا حصہ ہے۔














