ہائی نان، خوبصورت ساحلوں اور چائے کے باغات سے بھی آگے اب ایک غیر معمولی فری ٹریڈ زون

بدھ 26 نومبر 2025
author image

سارا افضل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چین، قدیم و  جدید کا وہ حیرت کدہ ہے جسے دیکھنے اور جاننے میں مجھے ہمیشہ سے دلچسپی رہی ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے یا دوستوں سے جو معلومات ملتی رہیں ان کی مدد سے میں نے کئی علاقوں کو اپنی ’ٹریول وش لسٹ‘ میں شامل کیا اور اس میں ایک نام خوبصورت ساحلوں والے سان یا کا بھی تھا۔

ہائی نان میں واقع اس ساحلی شہر کے بارے میں معلومات لیتے ہوئے اس جزیرے کے دیگر شہروں کے بارے میں بھی جاننا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ کیا ہی کمال علاقہ ہے یہ۔ سان یا کے خوبصورت ساحل ہوں یا ہائیکو کے کاروباری ماحول کی گہما گہمی، بوآو لہ چھینگ میں صحت کی خدمات کے شاندار مراکز ہوں یا چائے کی ہرے بھرے باغات کی تازگی، ہائی نان کے ہر علاقے کی انفرادیت اس کو یہاں آنے والوں کے لیے خاص بنا دیتی ہے۔

حالیہ دنوں جب چین کے جزیرہ نما صوبے ہائی نان جانے کا موقع ملا تو دل خوش ہوگیا، کہ ان علاقوں کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھوں گی۔ اپنے اس دورے کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ  ہائی نان صرف سیاحت، چائے کے باغات اور کاروباری گہما گہمی کا ہی نام نہیں، بلکہ یہ کاروبار کا آغاز کرنے، کاروبار جمانے اور نئی مارکیٹس تک پہنچنے کے لیے ایک بہت شاندار پلیٹ فارم ہے، جہاں دنیا بھر کے باصلاحیت افراد اپنے ذاتی کاروبار کے خواب کو حقیقت میں بدل رہے ہیں۔

اس سلسلے میں ہائیکو انٹرنیشنل ٹیلنٹ ہاؤس ان کی بھرپور مدد کر رہا ہے، اکتوبر 2025 تک 500 غیر ملکی پروفیشنلز، ٹیلنٹ کمیونٹی میں شامل ہوئے، غیر ملکیوں کے لیے 5 مرحلوں پر مشتمل کاروباری انکیوبیشن ٹریننگ سیشنز کا انعقاد کیا گیا اور اسی پروگرام کے تحت 200 افراد کی معاونت و رہنمائی کی گئی ہے، جب کہ 50 غیر ملکی انٹریپنیورز کو کاوبار جمانے میں مدد فراہم کی گئی۔

 ہائیکو فوشنگ چھنگ انڈسٹریل پارک جو ہائی نان میں صنعتی سرمایہ کاری اور انڈسٹریل پارک آپریشن مینجمنٹ کا معروف ادارہ ہے، ایک ’انڈسٹریل ایکولوجیکل آپریٹر‘ ہے۔ فوشنگ چھنگ  مختلف صنعتی شعبوں کے ساتھ ایک گروپ کمپنی کے طور پر ترقی پا چکا ہے، جس میں رئیل سٹیٹ کی ترقی، تجارتی آپریشن، پراپرٹی مینجمنٹ، صنعتی سرمایہ کاری، ہوٹل اور کیٹرنگ، نیز  فنڈ مینجمنٹ کے شعبے شامل ہیں۔

اس انڈسٹریل پارک میں میرے کانوں میں یکدم اردو کے الفاظ پڑے تو میں چونک گئی، کیا یہاں کوئی پاکستانی بھی ہے؟ منتظمین نے کہا، جی یہاں پر بہت سے غیر ملکی افراد ہیں جن میں کئی پاکستانی  بھی یہاں سے اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ کیا آپ ملنا چاہیں گی؟ ظاہر ہے انکار کی گنجائش ہی نہیں تھی۔

اس وقت وہاں 6 سے 7 پاکستانی موجود تھے جب کہ کچھ ساتھی کام کے سلسلے میں فیلڈ میں گئے ہوئے تھے۔ کئی غیر ملکی افراد کا تعلق ان ممالک سے تھا جن کے لیے ہائی نان کی ویزا فری پالیسی قابل عمل  ہے۔ اس پالیسی کے تحت 59 اہل ممالک کے پاسپورٹ ہولڈرز سیاحت، کاروباری سرگرمیوں، تبادلے کے دوروں، نمائشوں، کھیلوں کے مقابلوں اور  خاندان سے ملاقات وغیرہ کے لیے 30 دن کے لیے بغیر ویزے کے ہائی نان میں قیام کر سکتے ہیں۔ یہ سہولت ان ممالک کے شہریوں کے لیے وقت اور اخراجات  دونوں ہی کی بچت فراہم کرتی ہے۔

ان کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے معلوم ہوا کہ صرف ہائیکو ہی میں تقریباً 50 کے قریب پاکستانی کمپنیز کام کر رہی ہیں۔ میرا ان سے پہلا سوال ہی یہ تھا کہ انہوں نے باقی شہروں کی نسبت ہائی نان کا انتخاب ہی کیوں کیا؟ گو کہ سب نے انفرادی طور پر جواب دیئے لیکن وجوہات یکساں تھیں، یہاں کا موسم جو معتدل اور خوشگوار ہے۔

چین کے باقی بڑے شہروں کی نسبت یہ شہر نسبتاً سستا لیکن بہترین معیار زندگی فراہم کرتا ہے اور سب سے اہم وجہ کاروباری سہولیات اور حکومتی معاونت ہے۔ ان پاکستانیوں کے علاوہ یہاں موجود غیر ملکی بھی یہاں کے کاروباری ماحول سے بے حد مطمئن تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین کے دیگر شہروں کی نسبت ہائیکو کے انتخاب کی ایک بڑی وجہ اس کا فری ٹریڈ زون ہونا ہے، یہاں پر ٹیکسز نہیں ہیں، جس کی وجہ سے منافع بھی باقی علاقوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے اور کم سے کم کاغذی کاروائیوں کی وجہ سے مال کی ترسیل بھی تیز ہوتی ہے نیز  حکومتی اہلکاروں کی جانب سے بے حد تعاون کیا جاتا ہے۔

چین نے 2018 میں اعلان کیا تھا کہ وہ ہائی نان کو ایک پائلٹ فری ٹریڈ زون کے طور پر ترقی دے گا اور بتدریج اسے چینی خصوصیات کی حامل فری ٹریڈ پورٹ بنائے گا، جب کہ 2020 میں پیش کیے گئے منصوبے کے مطابق اس صدی کے وسط تک ہائی نان کو عالمی سطح پر بااثر اور اعلی معیار کے ایف ٹی پی میں تبدیل کرنے کا ہدف طے کیا گیا تھا۔

یہاں پر کام کرنے والے افراد نے اس تمام تر تبدیلی کو اپنے سامنے رونما ہوتے دیکھا ہے۔ آج  وہ اپنے فیصلے پر بے حد مطمئن ہیں کہ چین کے جس وعدے پر یقین کرکے انہوں نے یہاں کا انتخاب کیا تھا وہ پورا ہوا ہے اور  18 دسمبر سے پورے ہائی نان جزیرے میں  خود مختار کسٹمز آپریشنز کا باضابطہ آغاز ہو رہا ہے۔

یہاں کے کاروباری حلقوں سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ یہ آغاز نہ صرف اس علاقے کے لیے بلکہ چین کے کھلے پن کے اقدامات کے لیے بھی ایک بڑا قدم ہے۔ معاشی ماہرین اسے چین کی جانب سے اعلیٰ معیار کی کھلی معیشت کو فروغ دینے اور عالمی معیشت کی ترقی کے لیے ایک اہم اقدام قرار دے رہے ہیں۔

اب ذرا اس پہلو کو سمجھتے ہیں کہ کاروباری افراد اس نئے آغاز کے حوالے سے اتنے خوش کیوں ہیں۔ فری ٹریڈ پورٹ پالیسی فریم ورک کا بنیادی ستون زیرو ٹیرف پالیسی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خصوصی کسٹم آپریشنز  کا آغاز ہونے کے بعد، ہائی نان فری ٹریڈ پورٹ میں زیرو ٹیرف مصنوعات کا تناسب 21 فیصد سے بڑھ کر 74 فیصد تک ہو جائے گا، جبکہ ٹیرف فری اشیا کی تعداد 1,900 سے بڑھ کر تقریباً 6,600 ہو جائے گی۔

ان مثبت اقدامات سے کاروبار کے لیے پیداواری لاگت کے کم ہونے سمیت مارکیٹ بھی متحرک ہوگی، جب کہ جزیرے کے اندر تجارتی مال کی آزادی اور آسانی کی سطح نمایاں طور پر بہتر ہوگی۔

چین، مارکیٹ میں داخلے کے معیار کو مزید آسان بنا رہا ہے تاکہ کمپنیز ہائی نان فری ٹریڈ پورٹ میں ڈیوٹی فری اور ترجیحی پالیسیز سے فائدہ اٹھا سکیں۔ پہلے کمپنیز  کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی آمدنی کا کم از کم 60 فیصد ابھرتی ہوئی صنعتوں سے حاصل کریں، تاہم اب اس اصول کو ختم کر دیا گیا ہے، یہ تبدیلی اہلیت کو وسیع کرے گی اور مزید کمپنیز کو فری ٹریڈ پورٹ کی ترجیحی پالیسیز  سے فائدہ اٹھانے کے قابل بنائے گی۔

ہائی نان نے یکم نومبر سے ڈیوٹی فری خریداری کی پالیسی میں بھی توسیع کی ہے، جس کے بعد  اب آف شور ڈیوٹی فری فہرست مصنوعات کی 47 مختلف اقسام پر مشتمل ہے، جن میں چھوٹے ڈرونز، موسیقی کے پورٹیبل آلات، کپڑے اور چائے وغیرہ شامل ہیں۔ پالیسی کی یہ تبدیلیاں خریداروں کی متنوع ضروریات کو  پورا کریں گی اور مقامی کھپت بڑھانے سمیت مقامی طور پر خرچ کی صلاحیت کو  بھی بڑھائیں گی۔

ہائی نان فری ٹریڈ پورٹ کا یہ ترقیاتی عمل چین کی تجارتی پالیسی میں ایک اہم تبدیلی کی نمائندگی کر رہا ہے، جس کا مقصد ایک زیادہ آزاد اور موثر تجارتی ماحول پیدا کرنا نیز ہائی نان کے اقتصادی انضمام اور عالمی سرمایہ کاروں کے لیے اس کی کشش میں اضافہ کرنا ہے۔

سان یا کے ساحل پر لہروں کو دیکھتے ہوئے، یہاں کے ریستوران میں سی فوڈ ہاٹ پاٹ کابھرپور لطف اٹھاتے ہوئے، 700 سے زائد عالمی شہرت یافتہ برینڈز سے سجے دنیا کے سب سے بڑے  ڈیوٹی فری مال، سانیا ڈیوٹی فری مال میں خریداری کرتے ہوئے ملکی اور غیر ملکی افراد کی ایک بڑی تعداد دیکھ کر مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ یہ علاقہ جلد ہی غیر ملکی سیاحوں کی ’ڈریم ڈیسٹی نیشن‘ ہوگا۔

لیکن یہ بھی یاد رہے کہ یہاں کی بندرگاہ پر جہازوں سے کنٹینرز تک مال کے اترنے اور چڑھنے سے لے کر کسٹم سے گزر کر مارکیٹس تک آنے کے مختصر وقت نے اسے نئے کارباری مواقعوں کی جنت بنا دیا ہے، اور جلد ہی یہ ایشیا کا وہ مقناطیس ہوگا جو دنیا کے ہر کونے سے  چھوٹے اور بڑے کاروباری اداروں کو اپنی جانب کھینچ لے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

انقلاب کے دنوں میں محبت، بنگلہ دیشی اور پاکستانی جوڑے کی کہانی

پاکستان میں بیروزگار افراد کی تعداد 59 لاکھ ہوگئی، خیبر پختونخوا سب سے آگے

’سابق مس انڈیا کو شوہر نے دھمکی دی کہ تمہارا چہرہ بگاڑ دوں گا‘، وکیل کا انکشاف

شنگھائی ایئرپورٹ پر بھارتی خاتون کو زیر حراست رکھے جانے پر انڈیا کا چین سے شدید احتجاج

سائنسدانوں کو 10 ہزار سالہ قدیم ‘چیونگم’ کا سراغ مل گیا، اسے چبانے والا کون تھا؟

ویڈیو

جامعہ بلوچستان کے طلبہ کی آرٹ ایگزیبیشن، رنگوں، مجسموں اور خیالات سے سماجی و ماحولیاتی زخم بے نقاب

چولستان کے اونٹ کیوں مر رہے ہیں؟

وی ایکسکلوسیو: نظام کی بقا کے لیے خود کو مائنس کیا ورنہ اسمبلی توڑ دیتا تو آج بھی وزیراعظم ہوتا، چوہدری انوارالحق

کالم / تجزیہ

این اے 18 ہری پور سے ہار پی ٹی آئی کو لے کر بیٹھ سکتی ہے

دیوبند کا سب سے بڑا محسن : محمد علی جناح

پاکستان کا جی ایس پی پلس سفر جاری رہے گا