پاکستان میں اینٹی بائیوٹکس کا غیرضروری اور بے دریغ استعمال بہت عام ہے جو ایک طرف تو بیکٹیریا کے خلاف ان ادویات کی مزاحمت کو کمزور کررہا ہے اور دوسری جانب لوگوں میں موت کا بھی ایک بڑا سبب بن رہا ہے۔
ہمارے ملک میں عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ یا تو لوگ اپنی مرضی سے مختلف اینٹی بائیوٹکس کا انتخاب کرکے اسے استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں یا پھر ماضی میں دیے گئے ڈاکٹر کے نسخے کو ہمیشہ کے لیے یاد کرلیتے ہیں اور بیماری کی صورت میں خود ہی بازار سے لاکر کھانا شروع کردیتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ کچھ ڈاکٹرز بھی غیرضروری طور پر اینٹی بائیوٹک تجویز کررہے ہوتے ہیں جو ان دواؤں کی قوت مزاحمت کم کردیتا ہے اور وہ بیماری کے خلاف اس طرح کارگر نہیں رہتیں۔
اب ڈاکٹر کی ایما ہو یا پھر مریض کی اپنی مرضی دونوں صورتوں میں اینٹی بائیوٹک کے بے دریغ استعمال کے سبب بیماریوں پر قابو پانا روز بروز مشکل ہوتا جارہا ہے اور ساتھ ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو موت کے منہ میں بھی دھکیل رہا ہے۔ اس بات کا اندازہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے اعدادوشمار سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق پاکستان میں ہر سال 25 فیصد اموات اینٹی بائیوٹک کے غیر ضروری استعمال سے ہوتی ہیں۔
امریکی جرنل آف بائیو میڈیکل سائنس اینڈ ریسرچ کے مطابق پاکستان میں 96 اعشاریہ 9 فیصد میڈیکل اسٹورز ڈاکٹرز کے دیے گئے نسخے کے بغیر ادیات فروخت کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں میں خود سے اینٹی بائیوٹک کے استعمال کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
کتنے فیصد مریض سیلف میڈیکیشن کرتے ہیں؟
نیشنل لائبریری آف میڈیسن کی ریسرچ کے مطابق پاکستان میں صرف 34 اعشاریہ 2 فیصد افراد ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اینٹی بائیوٹکس استعمال کرتے ہیں اور 32 اعشاریہ 5 فیصد لوگ خود سے ہی اینٹی بائیوٹکس لیتے ہیں جبکہ 33 اعشاریہ 3 فیصد ایسے لوگ ہیں جو اینٹی بائیوٹک استعمال تو کر رہے ہیں مگر انہیں یہ علم ہی نہیں ہے کہ یہ ڈاکٹر سے منظور شدہ ہے بھی یا نہیں۔ ریسرچ کے مطابق خواتین کے مقابلے میں مرد حضرات میں اینٹی بائیوٹک کے استعمال کا رجحان زیادہ ہے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پمز اسپتال اسلام آباد کے انفیکشن کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نسیم نے بتایا کہ اینٹی بائیوٹک کا استعمال ملک میں ہر سطح پر ہورہا ہے۔
ڈاکٹر نسیم کہتی ہیں کہ اینٹی بائیوٹک کا غیر ضروری استعمال ہو رہا ہے اور معالجین ہر مرض کا علاج اس کے ذریعے ہی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز کو خود اتنی آگاہی ہونی چاہیے کہ وہ جو دوائی لکھ کر دے رہے ہیں پوری ذمہ داری کے ساتھ لکھ کر دیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ’آدھی سے زیادہ بیماریاں گلی محلوں میں گٹر اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اور گندے پانی سے پیدا ہوتی ہیں اس لیے اصل ضرورت اینٹی بائیوٹک نہیں بلکہ اس گندگی کو ختم کرنے کی ہے‘
پمز اسپتال میں بڑھتے ہوئے ٹائیفائیڈ کے مریضوں کے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ پر جو دوائی اثر کر رہی ہے آنے والے وقت میں ان کا اثر ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمارے ہاں ایک دوائی کا اتنا زیادہ استعمال ہوتا ہے اور اس وقت تک ہوتا رہتا ہے جب تک اس کا اثر ہونا نہ ختم ہو جائے‘۔
مویشی و مرغیاں بھی متاثر
ڈاکٹر نسیم نے توجہ دلائی کہ انسانوں کے علاوہ پولٹری انڈسٹریز سمیت باقی جانوروں کے لیے بھی اینٹی بائیوٹک کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ ایک خطرناک بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ مرغی اور دیگر جانوروں کو بھی اینٹی بائیوٹکس دی جاتی ہیں اور جب ان کا گوشت اور انڈے کھائے جاتے ہیں تو وہ انسان میں بھی منتقل ہوتی رہتی ہیں اور یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے جس کے باعث انسان میں ان اینٹی بائیوٹک اثر کرنا کم کر دیتی ہیں کیونکہ جسم ان کا عادی ہوتا جاتا ہے۔
اینٹی بائیوٹکس کا اندھادھند استعمال جان کے علاوہ مال کے لیے بھی نقصان دہ
اینٹی بائیوٹک کے بے دریغ استعمال کے ایک اور نقصان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر نسیم کا کہنا تھا کہ جس بیماری کا علاج 200 روپے میں ہو جاتا تھا اب وہ 2 لاکھ میں ہو رہا ہے۔ جس سے ہماری معیشت بھی تباہ ہو رہی ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب ملک میں دستیاب سستی ادویات کے غیرضروری اور بے دریغ استعمال کے باعث بیماریوں کے خلاف ان کا اثر ختم ہوجاتا ہے تو پھر مریضوں کو مہنگے غیرملکی نعمل البدل خریدنے پڑتے ہیں جس کے باعث ان پر معاشی بوجھ بھی بڑھ جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو اینٹی بائیوٹک کے حوالے سے پالیسی بنانی چاہیے اور اس حوالے سے کڑی نظر رکھنی چاہیے جبکہ ایم بی بی ایس کے طلبا کو اس چیز سے آگاہ کرنے اور جانوروں میں ان ادویات کے استعمال کو روکنے کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں صفائی و ستھرائی کا نظام بھی بہتر بنا لیا جائے تو بہت سی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹرز کی جانب سے غیرضروری طور پر اینٹی بائیوٹکس تجویز کیے جانے پر ڈاکٹر نسیم نے کہا کہ جو ڈاکٹر بلاوجہ یا معمولی بیماریوں کے علاج کے لیے اینٹی بائیوٹکس لکھ کر دیتے ہیں انہیں ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی مانیٹر کرے کیونکہ ہر عام شخص مہنگے علاج کی سکت نہیں رکھتا جس کی وجہ سے اموات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
سب سے زیادہ اینٹی بائیوٹکس کھانے والے ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر
نیشنل لائیبریری آف میڈیسن کی ایک اور رپورٹ کے مطابق دنیا میں اینٹی بائیوٹکس کے سب سے زیادہ استعمال کے حوالے سے بھارت اور چین کے بعد پاکستان کا نمبر تیسرا ہے۔ پاکستان میں 6 لاکھ سے زیادہ غیر رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز ہیں اور 7 سے 8 لاکھ افراد غیر قانونی طبی عمل میں ملوث ہیں۔
وزارت صحت کے ترجمان کی جانب سے بار بار اینٹی بائیوٹک کی پالیسی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر یہی جواب موصول ہوا کہ ’ابھی وہ آفس میں موجود نہیں ہیں اور پالیسی کا ڈاکیومنٹ پاس موجود نہیں ہے صرف ڈی جی صاحب کے پاس ہے اور وہ اس وقت ملک سے باہر ہیں‘۔
پاکستان کے سینیئر اور ممتاز ہیلتھ رپورٹر محمد قار بھٹی نے وی نیوز کو بتایا کہ پاکستان میں بلا ضرورت اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے جبکہ ازخود ادویات خرید کر استعمال کرنے کے رجحان میں میں بھی کافی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
وقار بھٹی کا کہنا تھا کہ ’انسان اور بیکٹیریا کا 2 ارب سال پرانا رشتہ ہے اور اینٹی بائیوٹکس کی دریافت کے بعد بیکٹیریا کو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن پھر بیکٹیریا نے بھی خود کو حالات کے مطابق ڈھالا اور اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت ڈیویلپ کرلی جبکہ انسانوں کی جانب سے اس کے بے دریغ استعمال نے بیکٹیریا کو اتنا زیادہ مضبوط بنا دیا ہے کہ اب ان کے خلاف مزاحمت کرنے والی ادویات بے اثر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔‘