5 اگست 2024 کو بنگلہ دیش میں طلبا احتجاج نے نہ صرف عوامی لیگ کی حکومت کو گرا دیا بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان اس 50 سال پرانی نفرت کی دیوار کو بھی گرا دیا جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان دوریاں ایک بار پھر سِمٹ گئیں۔
وہ خطہ جو کبھی مشرقی پاکستان کہلاتا تھا اور جس کی علیحدگی پر ہمارے شاعروں اور ادیبوں نے پر سوز ادب تخلیق کیا اور جس کی علیحدگی کا جشن ہر سال بھارت میں منایا جاتا ہے، اب پھر پاکستان سے بغل گیر ہے۔
مزید پڑھیں: ماضی کی تلخ یادیں بھول چکے، پاکستان بنگلہ دیش کو بھائی کی طرح دیکھتا ہے، مولانا فضل الرحمان
گزشتہ ماہ بنگلہ دیشی صحافیوں کے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تو اِس خواہش کا اظہار کیاکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ویزا رکاوٹیں دور یا کم از کم مزید سہل ہونی چاہییں کیونکہ بنگلہ دیش کے لوگ پاکستان آنے اور یہاں لوگوں سے ملنے کو بہت مشتاق رہتے ہیں۔
’پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان اعلیٰ وفود کے تبادلے‘
گزشتہ ایک سال سے زیادہ عرصہ جب سے بنگلہ دیش میں ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلے اور کئی معاہدات پر دستخط ہوئے ہیں۔
پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا جس میں انہیں خوب پذیرائی ملی، اور یہ پاکستان کی کسی اعلیٰ شخصیت کا ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں بنگلہ دیش کا پہلا دورہ تھا۔
اِسی طرح سے پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل (ریٹائرڈ) ساحر شمشاد مرزا نے اکتوبر میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا جس پر بھارت میں بہت زیادہ تنقید کی گئی۔ اس دورے میں پاکستان اور بنگلہ دیش نے دفاعی تعلقات مزید مستحکم کرنے پر بات چیت کی۔
گزشتہ ماہ جمعیت علمائے اِسلام کے مرکزی قائد مولانا فضل الرحمان نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔ اسی طرح سے بنگلہ دیش کے کئی اعلیٰ سطحی وفود پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں اور کئی بین الاقوامی کانفرنسوں کے دوران پاکستانی وزیراعظم، نائب وزیراعظم بنگلہ دیش کے چیف ایگزیکٹو سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان اب تک کن امور پر پیشرفت ہو چُکی ہے؟
دونوں ممالک نے سب سے اہم پیش رفت کے طور پر براہِ راست تجارت بحال کی، جس کے تحت بنگلہ دیش کو پاکستان سے چاول کی بڑی کھیپ برآمد کی گئی اور پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے جہاز نے پہلی مرتبہ بنگلہ دیشی بندرگاہ پر سرکاری سطح پر لنگر انداز ہو کر علامتی طور پر نصف صدی پرانے تعطل کو توڑا۔
اسی تناظر میں قریباً 20 سال بعد مشترکہ اقتصادی کمیشن کا اجلاس منعقد ہوا جس میں تجارت، سرمایہ کاری، زراعت، توانائی، آئی ٹی، صحت اور فوڈ سیکیورٹی جیسے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔
2025 میں ڈھاکا میں ہونے والے اعلیٰ سطحی دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان 6 اہم مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے، جن میں سفارتی و سرکاری پاسپورٹس پر ویزا کی شرط کا خاتمہ، تجارت کے لیے مشترکہ ورکنگ گروپ، فارن سروس اکیڈمیوں، میڈیا اداروں، اسٹریٹیجک اسٹڈیز اداروں اور ثقافتی تبادلوں میں تعاون شامل ہے۔
اسی دورے میں حلال تجارت کے فروغ کے لیے متعلقہ اداروں کے درمیان معاہدہ ہوا، جس سے خوراک اور دیگر حلال مصنوعات کی تجارت کو منظم کرنے میں مدد ملے گی، جبکہ تعلیم کے شعبے میں ’پاکستان بنگلہ دیش نالج کوریڈور‘ کے تحت بنگلہ دیشی طلبہ کے لیے اسکالرشپس کا اعلان کیا گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ ویزا سہولتوں میں نرمی، شپنگ اور براہِ راست فضائی رابطوں پر بات چیت اور علاقائی فورمز پر روابط کی بحالی نے اس امر کی نشاندہی کی کہ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان ماضی کے اختلافات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے، تاہم گزشتہ ایک سال میں تعلقات پہلی بار جذباتی بیانیے کے بجائے معاشی اور عملی مفادات کی بنیاد پر آگے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔
’پاکستان اور بنگلہ دیش 1971 سے 2025 ‘
پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات کو اگر ایک جملے میں سمیٹا جائے تو شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تعلقات ہمیشہ ماضی اور مستقبل کے درمیان معلق رہے۔
16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے نہ صرف ایک ملک کو دو حصوں میں تقسیم کیا بلکہ ایک ایسی سیاسی اور نفسیاتی خلیج بھی پیدا کی جو اگلے 50 برس تک دونوں ریاستوں کے باہمی رویّوں پر اثرانداز ہوتی رہی۔ ہر دہائی نے ان تعلقات کو ایک نیا رنگ دیا۔ کہیں تلخی، کہیں مجبوری، کہیں وقتی مفاہمت اور کہیں خاموشی۔
1971 سے 1980: شکست کے بعد خاموشی
پہلا عشرہ مکمل طور پر خاموشی اور صدمے کا تھا۔ بنگلہ دیش ایک نئی ریاست کے طور پر اپنی شناخت قائم کر رہا تھا جبکہ پاکستان 1971 کی عسکری اور سیاسی شکست کے بعد داخلی بحرانوں میں گھرا ہوا تھا۔ بنگلہ دیش کی قیادت کا مطالبہ واضح تھا: 1971 کے واقعات پر اعتراف اور معذرت۔
اس عرصے میں دونوں ممالک کے درمیان نہ سفارت تھی، نہ تجارت، نہ عوامی روابط تھے۔ 1974 میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا بلاشبہ ایک اہم پیش رفت تھی، مگر یہ قدم بھی اعتماد بحال نہ کر سکا۔ تعلقات رسمی سطح سے آگے نہ بڑھ سکے، اور پہلا عشرہ ایک بند دروازے کی طرح گزر گیا۔
1981 سے 1990: محتاط قربت، مگر فاصلے برقرار
1980 کی دہائی میں حالات نے کچھ کروٹ بدلی۔ پاکستان میں جنرل ضیاالحق اور بنگلہ دیش میں جنرل حسین محمد ارشاد کے ادوار میں نظریاتی اختلافات کے بجائے او آئی سی جیسے فورمز پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آئے۔
کچھ عملی مثالیں بھی سامنے آئیں۔ فوجی تربیت، سفارتی وفود کا تبادلہ، اور محدود تجارتی روابط۔ مگر یہ قربت سطحی رہی۔ 1971 کا سایہ ہر ملاقات میں موجود رہا۔ یوں یہ عشرہ ایک ایسی محتاط دوستی کی مثال بنا جو اعتماد میں کبھی نہ بدل سکی۔
1991 سے 2000: جمہوریت اور یادداشتوں کی سیاست
1990 کی دہائی میں جمہوریت کی واپسی نے تعلقات میں ایک نیا عنصر شامل کر دیا۔ بنگلہ دیش میں 1996 میں شیخ حسینہ کی حکومت نے 1971 کو قومی بیانیے کا مرکز بنا دیا۔ نصاب، تقاریر اور ریاستی بیانات میں پاکستان کا ذکر ایک منفی حوالہ بن کر ابھرا۔
اس دور میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں سرد مہری بڑھتی گئی۔ اگرچہ سفارتی تعلقات برقرار رہے، مگر عملی تعاون محدود ہوتا چلا گیا۔ یہ عشرہ اس حقیقت کی مثال تھا کہ جمہوری سیاست میں تاریخ محض ماضی نہیں رہتی، بلکہ حال کی سیاست کا ہتھیار بن جاتی ہے۔
2001 سے 2010: مفادات کی بنیاد پر وقتی بہتری
2001 کے بعد کے دور میں ایک بار پھر تعلقات میں بہتری کی فضا بنی۔ دونوں ممالک نے یہ محسوس کیا کہ ماضی کو ایک حد تک پسِ پشت ڈال کر عملی مفادات پر بات کی جا سکتی ہے۔ تجارت بڑھی، تعلیمی تبادلے ہوئے اور دفاعی روابط بحال ہوئے۔
پاکستانی جامعات میں بنگلہ دیشی طلبہ کی تعداد بڑھی اور دوطرفہ وفود کا تبادلہ معمول بن گیا۔ مگر یہ بہتری دیرپا ثابت نہ ہو سکی۔ 2009 میں عوامی لیگ کی واپسی اور جنگی جرائم ٹربیونلز کے قیام نے اس دور کا خاتمہ کردیا۔
2011 سے 2020: بیانات، ٹربیونلز اور جمود
2010کی دہائی دونوں ممالک کے تعلقات کے لیے سب سے زیادہ کشیدہ ثابت ہوئی۔ 1971 کے جنگی جرائم کے مقدمات، جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں کو دی گئی سزائیں، اور ان پر پاکستان کے ردعمل نے سفارتی بحران کو جنم دیا۔
سفیروں کو طلب کرنا، دفاعی تعاون کا خاتمہ اور اعلیٰ سطحی روابط کا تعطل اس عشرے کی نمایاں علامتیں بن گئیں۔ یہ دور اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ سفارتی تعلقات میں الفاظ، خاموشی سے بھی زیادہ نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان بنگلہ دیش تعلقات میں بہتری کا عمل سبوتاژ کرنے کی کوششیں ناکام ہوں گی، دفتر خارجہ
2021 سے 2025: خاموش سفارت کاری، محتاط امید
گزشتہ چند برسوں میں دونوں ممالک نے ٹکراؤ کے بجائے خاموشی کو ترجیح دی۔ اگرچہ سیاسی سطح پر گرمجوشی نظر نہیں آتی، مگر تجارت، صحت اور تعلیم جیسے شعبوں میں آہستہ آہستہ تعاون بڑھ رہا ہے۔
پاکستانی فارماسیوٹیکل مصنوعات بنگلہ دیشی مارکیٹ میں جگہ بنا رہی ہیں، جبکہ علاقائی فورمز پر رابطے بحال ہیں۔ یہ تعلقات اب نہ جذباتی ہیں، نہ دشمنانہ بلکہ ایک محتاط حقیقت پسندی کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔













