سقوط ڈھاکہ: جاوید ہاشمی جھوٹ بول رہے ہیں

منگل 16 دسمبر 2025
author image

آصف محمود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مکتی باہنی، عوامی لیگ اور ان کے سرپرستوں کا جو بیانیہ اس وقت ڈھاکہ میں رسوا ہو چکا ہے، مخدوم رشید کے جاوید ہاشمی صاحب نے اسے پرچم بنا کر تھام لیا ہے۔ ہاشمی صاحب کا احترام آڑے نہ آ جاتا تو میں یہ لکھ دیتا کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں اور غلط بیانی کر رہے ہیں۔ صریح جھوٹ اور واضح غلط بیانی۔

اپنے ایک ٹوئٹ میں جاوید ہاشمی لکھتے ہیں: ’8 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ ایئرپورٹ پر واپسی کی فلائٹ کے لیے بیٹھا تھا۔ ساتھیوں سے کہہ رہا تھا کہ اگلی دفعہ یہاں شاید ویزے پر ہی آ سکیں گے، جو کچھ دیکھ چکا تھا، وہ ناقابلِ یقین تھا۔ ہماری فوج اپنے ہی ہم وطنوں کا قتلِ عام کر رہی تھی، اور کوّوں اور گدھوں کے نوچے ہوئے لاشوں کے ڈھیر اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھے تھے۔ ان کا لیڈر ہر تقریر میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا، مگر شاید ہماری ریاست خود علیحدگی چاہتی تھی۔‘

اس ٹوئٹ میں دو غلط بیانیاں ہیں۔ اوّل یہ کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے رہنما بے چارے تو 8 دسمبر تک ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے، اور دوسرا یہ کہ پاکستان کی فوج قتل عام کر رہی تھی۔

سوال یہ ہے کہ اگر واقعی 8 دسمبر 1971 تک عوامی لیگ کے رہنما ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے تو مکتی باہنی کیا مخدوم رشید کے رضاکاروں پر مشتتمل تھی؟ عوامی لیگ والے اگر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے تو ڈھاکہ یونیورسٹی کے اقبال ہال اور جگن ناتھ ہال میں اسلحے کے ڈپو کس نے قائم کر رکھے تھے؟

مکتی باہنی کی درندگی پر معصومیت کی ایسی ململ تو اندرا گاندھی اور شیخ مجیب مل کر بھی نہ ڈال سکے جو مخدوم صاحب نے ڈال دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوامی لیگ اور مکتی باہنی نے بہت پہلے ہی غیر بنگالیوں کا قتل عام شروع کر دیا اور اس قتل عام کو روکنے کے لیے فوجی آپریشن شروع ہوا۔

یاسمین سائیکا نے اپنی کتاب ’ویمن، وار اینڈ میکنگ آف بنگلہ دیش‘ میں لکھا کہ بہاریوں کی آبادی کا 20 فیصد مکتی باہنی نے بھارتی فوج کے ساتھ مل کرقتل کر دیا۔ انسائیکلو پیڈیا آف وائیلنس، پیس اینڈ کانفلیکٹ کے مطابق ایک لاکھ 50 ہزار بہاری قتل کر دیے گئے۔ فار ایسٹرن اکنامک ریویو کے نمائندہ برائے جنوبی ایشیا لارنس لفچلز نے لکھا کہ مکتی باہنی کے رہنما عبد القادر صدیقی نے کئی بنگالیوں کو چھرا گھونپ کر ہلاک کرنے کی ایک تقریب منعقد کرتے ہوئے اس کی باقاعدہ فلم بندی کرائی۔ عورتوں کے اعضا کاٹے گئے۔ ان کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ انہیں بھارتی فوجیوں کو تحفے میں دیا گیا۔ غیر بنگالیوں کو پکڑ ان کی رگوں سے سرنجوں کے ذریعے سارا لہو نکال کر انہیں قتل کیا گیا۔ مخدوم رشید میں اگر کوئی لائبریری نہیں ہے تو جاوید ہاشمی صاحب کہیں اور سے قطب الدین عزیزکی کتاب ’بلڈ اینڈ ٹیئرز‘ تلاش کرکے اس کا مطالعہ کریں۔

2 مئی 1971 کے سنڈے ٹائمز میں انتھنی مسکان نے لکھا کہ قریباً ایک لاکھ غیر بنگالیوں کا قتل عام کیا گیا۔ 13 جون کو ایک اور مضمون میں انتھنی نے اس قتل عام کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا: ’عورتوں کی آبرو ریزی کی گئی، خاص طور پر تیار کیے گئے چاقوؤں سے ان کی چھاتیوں کو کاٹا گیا، بچے بھی اس قتل عام سے محفوظ نہ تھے۔ لوگوں کی آنکھیں تک نکال پھینکی گئیں، چٹا گانگ، کھلنا اور جیسور میں 20 ہزار غیر بنگالیوں کی لاشیں پائی گئیں۔ چٹا گانگ ملٹری اکیڈمی کے غیر بنگالی کمانڈنٹ کو اس کی بیوی سمیت قتل کردیا گیا۔ ایک غیر بنگالی خاتون کو قتل کرکے اس کے ننگے جسم پر اسی کے بیٹے کا سر رکھ دیا گیا۔ کئی نوجوان عورتوں کی لاشیں سڑکوں پر پڑی تھیں جن کی شرمگاہوں میں بنگلہ دیش کے جھنڈوں والے ڈنڈے ٹھونس دیے گئے تھے۔‘

چنانچہ یہ وہ حالات تھے جن میں آرمی ایکشن کا فیصلہ کیا گیا۔ عوامی لیگ والے پاکستان زندہ باد کے نعرے نہیں لگا رہے تھے قتل عام کر رہے تھے۔ یہ سارے وہ حقائق ہیں جو دنیا بھر کے اہل دانش نے بیان کیے لیکن ڈھاکہ میں مخدوم صاحب کو ان کی خبر نہ ہو سکی۔

مکتی باہنی کے ہاتھوں معصوم غیر بنگالیوں کے اس قتل عام کا خود بنگلہ دیش حکومت کو بھی معلوم ہے، چنانچہ جب بنگلہ دیش حکومت نے نیشنل لبریشن سٹرگل انڈمنٹی آرڈر کی دفعہ 2 کے تحت مکتی باہنی کو ان جرائم کے خلاف کارروائی سے استثنیٰ دے دیا جو اس نے یکم مارچ 1971 سے لے کر 28 فروری 1972 تک کیے تھے۔ غور فرمائیے، بنگلہ دیش کی حکومت تسلیم کررہی ہے کہ مکتی باہنی یکم مارچ 1971 سے قتل عام میں مصروف تھی اور اسے اس دورانیے کے جرائم پر استثنیٰ دے رہی تھی لیکن جاوید ہاشمی یہ بات تسلیم نہیں کررہے۔ مکتی باہنی کو ایسے فکری سہولت کار پہلے کب ملے ہوں گے؟

مزید یہ دیکھیے کہ جنگ تو 16 دسمبر 1971 کو ختم ہوگئی تھی تو مکتی باہنی کو دیے گئے استثنیٰ کی مدت 28 فروری 1972 تک کیوں؟ سادہ سا جواب ہے، کیونکہ اس عرصے میں بھی اس نے جی بھر کر ان لوگوں کا قتل عام کیا جو پاکستان سے وفادار رہے۔ مخدوم صاحب اس سے بھی بے نیاز ہیں۔

معلوم نہیں یہ بڑھتی عمر کا تقاضا ہے یا مشرف آمریت کے دوران ہونے والے ناروا سلوک کا رد عمل ہے کہ جولوگ قتل عام میں مصروف تھے ان کے مخدوم صاحب قصیدے پڑھ رہے ہیں اور ریاست کی جو فوج قتل عام کے بعد آپریشن کرنے گئی ان پر قتل عام کا الزام عائد کررہے ہیں۔

پاکستانی فوج پر قتل عام کا الزام بھی حماقت اور کذب کے سوا کچھ نہیں۔ مخدوم صاحب جو زبان بول رہے یں یہ شیخ مجیب کی زبان ہے۔ شیخ مجیب پاکستان سے رہا ہو کر لندن پہنچے تو کہا ’پاکستان نے 10 لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا ہے‘۔ لندن سے ڈھاکہ جاتے ہوئے دلی میں رکے تو ان پر نیا ’انکشاف‘ ہوا اور کہا ’پاکستان نے ہمارے 35 لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا ہے‘۔ کچھ دن گزرے تو ایک باقاعدہ بیان جاری فرما دیا کہ پاکستان نے 30 لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا اور 3 لاکھ عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ بعد میں یہی اعدادوشمار بنگلہ دیش اور بھارت کا بیانیہ بن گئے اور انہیں دہرایا جاتا رہا اور آج جاوید ہاشمی اسی پاکستان دشمن بیانیے کو لے کر چل رہے ہیں جو جھوٹ، کذب، دجل اور بد دیانتی پر استوار ہے۔

بنگلہ دیش ہی کے ایک محقق نعیم مہیمن کا ایک مقالہ ہے جو ’اکنامک ایند پولیٹیکل ویکلی‘ میں 26 جنوری 2008 کو شائع ہوا۔ ان کے مطابق یہ جھوٹ بنگلہ دیش میں اس تواتر سے دہرایا گیا کہ اس پر سوال اٹھانا اب ممکن نہیں رہا۔ ہٹلر نے مبینہ طور پر 60 لاکھ یہودیوں کو 6 سال میں قتل کیا۔ 30 لاکھ بنگالی 7 ماہ میں کیسے قتل ہوگئے؟ 26 مارچ کو آپریشن شروع ہوا اور 16 دسمبر تک کے ایام گن لیں تو شیخ مجیب کے الزام کے مطابق گویا ہر روز 11 ہزار 500 کے قریب بنگالی قتل ہوئے۔ یعنی ہٹلر سے 6 گنا زیادہ قتل عام۔ کیا اس سے زیادہ بے ہودہ الزام بھی کوئی ہو سکتا ہے؟

شیخ مجیب نے 1972 میں مقتولین آزادی کی تفصیلات جمع کرنے کے لیے ایک 12 رکنی کمیشن بنایا تھا۔ اسے عبد الرحیم انکوائری کمیشن کہا جاتا ہے۔ سرکاری سطح پر اس کی تشہیر ہی نہیں کی گئی بلکہ شیخ مجیب نے عوامی لیگ کے تمام عہدیداروں کو تفصیلات اکٹھا کرنے کا حکم دیا۔ جب تحقیق سامنے آئی تو کیا آپ کو معلوم ہے اس فہرست میں کتنے مقتولین کا نام درج تھا؟ 2 ہزار۔ جی ہاں گارجین کی 6 جون 1972 کی رپورٹ کے مطابق صرف 2 ہزار بنگالی ایسے لوگ تھے جن کے بارے میں کہا گیا کہ فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔ ولیم دورمنڈ کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ پڑھی تو شیخ مجیب غصے سے کانپنے لگ گیا، رپورٹ کو اٹھا پر زمین پر دے مارا اور چلانے لگا کہ یہ رپورٹ اپنے پاس رکھو، میں نے 30 لاکھ کہہ دیا تو بس 30 لاکھ ہی ہیں۔

میرا خیال ہے یہ کالم پڑھ کر جاوید ہاشمی صاحب بھی غصے میں چیخ کر کہیں گے بھاڑ میں گیا یہ کالم، جب میں نے کہہ دیا پاکستان کی فوج نے قتل عام کیا تو بس کیا۔

سانحہ مشرقی پاکستان میں اپنی غلطیوں کو یقیناً تلاش کرنا چاہیے لیکن غلطیاں ہوئیں تو دونوں طرف سے ہوئیں۔ لیکن ہم نے یکطرفہ طور پر ادھورا مینڈیٹ دے کر حمود الرحمان کمیشن کی ناقص، بے ہودہ اور نامعتبر رہورٹ کا تازیانہ بنا لیا اور اپنی ریاست پر برسانے لگے۔ (اس پر میں الگ سے تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ ایک ناقص، بے ہودہ، یکطرفہ اور ادھورے مینڈیٹ پر مبنی ایسی دستاویز ہے جس کا علم کی دنیا میں کوئی اعتبار نہیں۔)

۔

جاوید ہاشمی صاحب کو معلوم ہونا چاہیے، تاریخ کی گتھیاں رد عمل کے اسیر کسی جذباتی سیاست دان کے ناتراشیدہ رویے سے نہیں سلجھتیں، یہ دیانت اور مطالعے سے سلجھتی ہیں۔

مکرر عرض ہے کہ جاوید ہاشمی صاحب کا احترام نہ ہوتا تو میں یہ لکھتا کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

بیٹی کی تحویل کے معاملے پر معروف اداکارہ کا مبینہ اغوا، شوہر کے خلاف مقدمہ درج

عمران خان کے بیٹوں کا اسکائی نیوز کو انٹرویو، ‘ویڈیو بیان میں کونسی بات جھوٹ ہے؟’

این ڈی ایم اے کی 27ویں امدادی کھیپ فلسطین روانہ، 100 ٹن سامان بھیجا گیا

یورپی پارلیمنٹ کی منظوری، سعودی عرب اور یورپی یونین کے تعلقات میں نئی شراکت داری کی راہ ہموار

شدید دھند کے دوران غیر ضروری سفر سے گریز کی ہدایت، ملک بھر میں اسموگ الرٹ جاری

ویڈیو

پنجاب یونیورسٹی: ’پشتون کلچر ڈے‘ پر پاکستان کی ثقافتوں کا رنگا رنگ مظاہرہ

پاکستان کی نمائندگی کرنے والے 4 بین الاقوامی فٹبالر بھائی مزدوری کرنے پر مجبور

فیض حمید کے بعد اگلا نمبر کس کا؟ وی ٹاک میں اہم خبریں سامنے آگئیں

کالم / تجزیہ

سینٹرل ایشیا کے لینڈ لاک ملکوں کی پاکستان اور افغانستان سے جڑی ترقی

بہار میں مسلمان خاتون کا نقاب نوچا جانا محض اتفاق نہیں

اگلی بار۔ ثاقب نثار