سینٹرل ایشیا کے لینڈ لاک ملکوں کی پاکستان اور افغانستان سے جڑی ترقی

بدھ 17 دسمبر 2025
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ترکمانستان نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد غیرجانبدار رہنے اور کسی فوجی سیاسی اتحاد میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے کی اہمیت سمجھنے کے لیے یہ جان لیں کہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کی خواہش اور کوشش کا نتیجہ روس کے حملے کی صورت میں نکلا۔ ترکمانستان کی غیرجانبدار رہنے کی پالیسی کو 12 دسمبر 1995 کو یو این کی ایک قرارداد کے ذریعے باضابطہ طور پر تسلیم بھی کر لیا گیا تھا۔ ترکمانستان وہ واحد ملک تھا جس نے افغان طالبان کی پہلی حکومت کو تسلیم کیے بغیر ہی اس کے ساتھ ورکنگ ریلیشن بنائے رکھے تھے۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے اپنی غیر جانبدار پالیسی پر ہی عمل کیا تھا۔

2 فروری 2017 کو ترکمانستان ہی کی تجویز پر یو این کی قرارداد نمبر 71/275 منظور کی گئی، جس کے تحت 12 دسمبر کو ’عالمی یومِ غیر جانبداری‘ قرار دیا گیا۔ یو این نے 2025 کو ’امن اور اعتماد کا عالمی سال‘ قرار دیا ہے۔ ترکمانستان نے اپنی غیر جانبداری کے 30 سال مکمل ہونے پر اشک آباد میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی، جس میں بڑی تعداد میں غیر ملکی سربراہان اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اس کانفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف، روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن، ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان، ایران کے صدر مسعود پزشکیان، قازقستان کے صدر قاسم جومارت توقایف، کرغیزستان کے صدر صدیر جپاروف، تاجکستان کے صدر امام علی رحمان، ازبکستان کے صدر شوکت مرزایوف، آرمینیا کے صدر واہاغن خاچاتوریان، عراق کے صدر عبداللطیف رشید، ساؤ ٹومے و پرنسپے کے صدر کارلوس مانوئیل ویلا نووا، جارجیا کے وزیراعظم ایرکلی کوباخیدزے، آذربائیجان کے وزیراعظم علی اسدوف اور ایسواتینی کے وزیراعظم رسل ڈلامینی شریک ہونے کے لیے ترکمانستان پہنچے تھے۔

کانفرنس کا فوکس عالمی چیلنجز، علاقائی تعاون اور لینڈ لاک ممالک کے مسائل رہا۔ شریک رہنماؤں نے ترکمانستان کی غیر جانبدار پالیسی کی تعریف کی اور انرجی، تجارت، واٹر ڈپلومیسی اور علاقائی کنیکٹیویٹی کے لیے ترکمانستان کی مربوط اور تسلسل کے ساتھ کی جانے والی کوششوں کو سراہا۔

کرغیز صدر نے خاص طور پر لینڈ لاک ممالک کے مسائل کو اجاگر کرنے پر ترکمانستان کی تعریف کی۔ اگست 2025 میں ترکمانستان کے شہر آوازہ میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام لینڈ لاک ممالک کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جو اقوام متحدہ کی سرپرستی میں تیسری ایسی کانفرنس تھی۔ کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی تحفظ، اقتصادی تعاون اور سرمایہ کاری کے امکانات بھی زیرِ بحث آئے۔ کرغیز صدر 3 اور 4 دسمبر کو پاکستان آئے تھے۔ اس دورے پر انہوں نے 1995 کے کیو ٹی ٹی اے کواڈیلیٹرل ٹریفک ان ٹرانزٹ اگریمنٹ کی بحالی پر زور دیا تھا۔

یہ معاہدہ پاکستان کو چین کے راستے کرغیزستان اور قازقستان سے ملاتا ہے۔ تاجکستان بھی اس معاہدے کا ممبر ہے جبکہ ازبکستان نے شمولیت کی یقین دہانی کرا رکھی ہے۔ اس معاہدے کی بحالی پر اصرار اور ترکمانستان میں لینڈ لاک ملکوں کے مسائل پر بات کرنے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سینٹرل ایشین ممالک افغانستان پاکستان کے تناؤ میں مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیا کو ملانے کے اپنے خوابوں کو کیسے دھندلا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

چاہ بہار پورٹ کو امریکا نے پابندیوں سے حال ہی میں چھوٹ دی ہے، اس چھوٹ کو ہمارے ہاں انڈیا اور افغانستان کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ 2018 میں امریکا ابھی افغانستان میں موجود تھا، بھارت کے افغانستان میں تعاون اور تعمیر نو میں مدد کو دیکھتے ہوئے امریکا نے چاہ بہار پر پابندیوں سے بھارت کو چھوٹ دے دی۔

اس چھوٹ کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ افغانستان کو پاکستان کا ایک متبادل راستہ فراہم کر دیا جائے۔ 16 ستمبر 2025 کو امریکی حکومت نے اچانک 2018 میں دی گئی چھوٹ منسوخ کرکے نئی پابندیاں عائد کر دیں۔ چاہ بہار پر کام کرنے والی کمپنیاں اور افراد بھی ان نئی پابندیوں کی زد میں آ گئے۔ 30 اکتوبر کو ڈیڑھ ماہ بعد امریکا نے پابندیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے دوبارہ چھوٹ دینے کا اعلان کیا۔ یہ چھوٹ 6 ماہ کے لیے دی گئی ہے جس کی مدت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

چاہ بہار پورٹ کو پابندیوں سے چھوٹ ملنے کے 10 دن بعد پانچ سینٹرل ایشین ممالک کے صدور نے واشنگٹن کا دورہ کیا۔ اس کو C5+1 اجلاس کا نام دیا گیا۔ اقتصادی تعاون، تجارتی ماحول کی بہتری، کریٹکل منرل اور ٹریڈ روٹس پر بات ہوئی۔ نومبر میں ہی قازقستان اور ازبکستان کے ساتھ نئے معاہدے کیے گئے۔ یہ سب دیکھیں تو چاہ بہار کو ملنے والی چھوٹ کا سب سے زیادہ تعلق سینٹرل ایشیا سے بنتا دکھائی دیتا ہے۔

اشک آباد کانفرنس کے موقع پر ہونے والی سائیڈ لائن ملاقاتیں بھی خاصی اہم رہیں۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور ترک صدر رجب طیب اردوان کی ملاقات میں یوکرین جنگ، نیوکلیئر پاور پلانٹ اور بلیک سی فوڈ ڈیل پر گفتگو ہوئی۔ اسی ملاقات میں پاکستانی وزیرِاعظم محمد شہباز شریف بھی شریک ہوئے۔ ترک اور روسی صدور کی ملاقات طویل ہونے کے باعث وزیرِاعظم پاکستان کو بھی اسی ملاقات میں شامل کر لیا گیا۔ شہباز شریف کے روسی صدر کا انتظار کرنے سے متعلق رشیا ٹوڈے انڈیا کی ایک ٹوئٹ نے سوشل میڈیا پر خاصا ردِعمل پیدا کیا، جسے بعد میں ڈیلیٹ بھی کر دیا گیا تھا۔

علاقائی کانفرنسوں میں افغانستان کا بار بار ذکر ہوتا ہے۔ ہم ریجنل شفٹ کو اپنی آنکھوں کے سامنے رونما ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ وار اکانومی کے متبادل اب منرل اکانومی، انرجی، کنیکٹیوٹی اور کاریڈور ہیں۔ امریکا نے روس اور یوکرین دونوں کے ساتھ رئر ارتھ منرل ڈیل کر رکھی ہے۔ پاکستان سے بھی منرل اور انرجی پر انویسٹمنٹ کی باتیں آگے بڑھ رہی ہیں۔ ریکوڈک کے لیے امریکی بینک نے فائنانسنگ فراہم کی ہے۔

افغانستان میں منرل اور انرجی میں چین کی دلچسپی ہے۔ افغان طالبان نے آمو بیسن میں تیل اور گیس کی تلاش کا چینی کمپنی سے معاہدہ منسوخ بھی کیا ہے۔ منرل اور انرجی کے ان معاہدوں کا مختلف کاریڈور سے اہم تعلق ہے۔ اگر یوکرین جنگ بند ہوتی ہے تو امریکا ٹرانس سائبیرین ریلوے کو منرل کی منتقلی کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ اگر جنگ جاری رہتی ہے تو ٹرمپ روٹ فار انٹرنیشنل پیس اینڈ پراسپیریٹی ایک متبادل ہے جو روس اور ایران دونوں کو بائی پاس کرتا ہے۔ آذر بائجان، آرمینیا اور ترکیہ کے راستے سینٹرل ایشیا کو یورپ اور آگے امریکا تک ملاتا ہے۔

پاکستان میں منرل کے لیے مخصوص پسنی بندرگارہ کی امریکی مدد سے تعمیر کی خبریں سامنے آئی تھیں۔ جدید دنیا کو ترقی کے لیے رئر ارتھ منرل پر انحصار کرنا ہے۔ جنگوں، شدت پسندی، مسلح گروپوں سے متاثرہ افغانستان اور اس جیسے علاقے اگر حالات کے مطابق خود کو نہ ڈھال سکے تو متبادل راستوں کی تلاش پر کام ان کے بغیر بھی تیزی سے جاری ہے۔ یہ وہ پوائنٹ ہے جہاں ہمارا فیصلہ طے کرے گا کہ ہم ترقی و خوشحالی کی بلندیوں کی جانب پرواز کریں گے یا غربت و پسماندگی کی پستیوں میں گرنے کا آپشن لیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

بیٹی کی تحویل کے معاملے پر معروف اداکارہ کا مبینہ اغوا، شوہر کے خلاف مقدمہ درج

عمران خان کے بیٹوں کا اسکائی نیوز کو انٹرویو، ‘ویڈیو بیان میں کونسی بات جھوٹ ہے؟’

این ڈی ایم اے کی 27ویں امدادی کھیپ فلسطین روانہ، 100 ٹن سامان بھیجا گیا

یورپی پارلیمنٹ کی منظوری، سعودی عرب اور یورپی یونین کے تعلقات میں نئی شراکت داری کی راہ ہموار

شدید دھند کے دوران غیر ضروری سفر سے گریز کی ہدایت، ملک بھر میں اسموگ الرٹ جاری

ویڈیو

پنجاب یونیورسٹی: ’پشتون کلچر ڈے‘ پر پاکستان کی ثقافتوں کا رنگا رنگ مظاہرہ

پاکستان کی نمائندگی کرنے والے 4 بین الاقوامی فٹبالر بھائی مزدوری کرنے پر مجبور

فیض حمید کے بعد اگلا نمبر کس کا؟ وی ٹاک میں اہم خبریں سامنے آگئیں

کالم / تجزیہ

بہار میں مسلمان خاتون کا نقاب نوچا جانا محض اتفاق نہیں

سقوط ڈھاکہ: جاوید ہاشمی جھوٹ بول رہے ہیں

اگلی بار۔ ثاقب نثار